وعن ابي امامة بن سهل بن حنيف ان عثمان بن عفان رضي الله عنه اشرف يوم الدار فقال: انشدكم بالله اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث: زنى بعد إحصان او كفر بعد إسلام او قتل نفس بغير حق فقتل به؟ فو الله ما زنيت في جاهلية ولا إسلام ولا ارتددت منذ بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا قتلت النفس التي حرم الله فبم تقتلونني؟ رواه الترمذي والنسائي وابن ماجه وللدارمي لفظ الحديث وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَشْرَفَ يَوْمَ الدَّارِ فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثلاثٍ: زِنىً بَعْدَ إِحْصَانٍ أَوْ كُفْرٌ بَعْدَ إِسْلَامٍ أَوْ قتْلِ نفْسٍ بِغَيْر حق فَقتل بِهِ؟ فو الله مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ وَلَا ارْتَدَدْتُ مُنْذُ بَايَعْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَتَلْتُ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ فَبِمَ تَقْتُلُونَنِي؟ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وللدارمي لفظ الحَدِيث
ابوامامہ بن سہل بن حنیف سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ”یوم الدار“(جن دنوں باغیوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو محصور کر رکھا تھا) لوگوں کو دیکھ کر فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے آگاہ نہیں ہو؟ کہ ”کسی مسلمان شخص کا خون تین میں سے کسی ایک وجہ پر درست ہے: شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرنا یا اسلام کے بعد کفر کرنا یا کسی جان کو ناحق قتل کرنا، اور وہ اس کے باعث قتل کیا جائے گا۔ “ اللہ کی قسم! میں نے نہ تو دورِ جاہلیت میں زنا کیا اور نہ زمانہ اسلام میں، میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی اس وقت سے آج تک کبھی مرتد نہیں ہوا، اور میں نے کسی ایسی جان کو قتل نہیں کیا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، تو پھر تم مجھے کیوں قتل کرتے ہو؟ ترمذی، نسائی، ابن ماجہ۔ اور دارمی میں صرف حدیث کے الفاظ ہیں۔ صحیح، رواہ الترمذی و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (2158 وقال: حسن) و النسائي (91/7. 92 ح 4024) و ابن ماجه (2533) والدارمي (171/2. 172 ح 2302 مختصرًا)»