وعن حنظلة بن قيس عن رافع بن خديج قال: اخبرني عماي انهم كانوا يكرون الارض على عهد النبي صلى الله عليه وسلم بما ينبت على الاربعاء او شيء يستثنيه صاحب الارض فنهانا النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك فقلت لرافع: فكيف هي بالدراهم والدنانير؟ فقال: ليس بها باس وكان الذي نهي عن ذلك ما لو نظر فيه ذوو الفهم بالحلال والحرام لم يجيزوه لما فيه من المخاطرة وَعَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خديج قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمَّايَ أَنَّهُمْ كَانُوا يُكْرُونَ الْأَرْضَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا يَنْبُتُ عَلَى الْأَرْبَعَاءِ أَوْ شَيْءٍ يَسْتَثْنِيهِ صَاحِبُ الْأَرْضِ فَنَهَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَقُلْتُ لِرَافِعٍ: فَكَيْفَ هِيَ بِالدَّرَاهِمِ وَالدَّنَانِيرِ؟ فَقَالَ: لَيْسَ بِهَا بَأْسٌ وَكَأَنَّ الَّذِي نُهِيَ عَنْ ذَلِكَ مَا لَوْ نَظَرَ فِيهِ ذَوُو الْفَهْمِ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ لَمْ يُجِيزُوهُ لِمَا فِيهِ مِنَ الْمُخَاطَرَةِ
حنظلہ بن قیس، رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، میرے دو چچا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں زمین کرائے پر دیا کرتے تھے، لیکن وہ برساتی نالے کے آس پاس اگنے والی کھیتی یا کوئی اور چیز مستثنی کر لیا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا، میں نے رافع رضی اللہ عنہ سے کہا: وہ درہم و دینار کے بدلے دینے میں کیا حکم رکھتی ہے؟ انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں، اور جس وجہ سے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے اگر حلال و حرام کے متعلق جاننے والا صاحب فہم و فراست اس کا جائزہ لے تو وہ بھی اس میں موجود دھوکے کے پیش نظر اسے جائز قرار نہ دے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2346) و مسلم (1547/115)»