عن عائشة قالت: شكا الناس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قحوط المطر فامر بمنبر فوضع له في المصلى ووعد الناس يوما يخرجون فيه. قالت عائشة: فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بدا حاجب الشمس فقعد على المنبر فكبر وحمد الله عزوجل ثم قال: «إنكم شكوتم جدب دياركم واستئخار المطر ع إبان زمانه عنكم وقد امركم الله عزوجل ان تدعوه ووعدكم ان يستجيب لكم» . ثم قال: «الحمد لله رب العالمين الرحمن الرحيم ملك يوم الدين لا إله إلا الله يفعل ما يريد اللهم انت الله لا إله إلا انت الغني ونحن الفقراء. انزل علينا الغيث واجعل ما انزلت لنا قوة وبلاغا إلى حين» ثم رفع يديه فلم يترك الرفع حتى بدا بياض إبطيه ثم حول إلى الناس ظهره وقلب او حول رداءه وهو رافع يديه ثم اقبل على الناس ونزل فصلى ركعتين فانشا الله سحابة فرعدت وبرقت ثم امطرت بإذن الله فلم يات مسجده حتى سالت السيول فلما راى سرعتهم إلى الكن ضحك صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه فقال: «اشهد ان الله على كل شيء قدير واني عبد الله ورسوله» . رواه ابو داود عَن عَائِشَة قَالَتْ: شَكَا النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُحُوطَ الْمَطَرِ فَأَمَرَ بِمِنْبَرٍ فَوُضِعَ لَهُ فِي الْمُصَلَّى وَوَعَدَ النَّاسَ يَوْمًا يَخْرُجُونَ فِيهِ. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَدَا حَاجِبُ الشَّمْسِ فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَكَبَّرَ وَحَمِدَ اللَّهَ عزوجل ثُمَّ قَالَ: «إِنَّكُمْ شَكَوْتُمْ جَدْبَ دِيَارِكُمْ وَاسْتِئْخَارَ الْمَطَرِ عَ ْ إِبَّانِ زَمَانِهِ عَنْكُمْ وَقَدْ أَمَرَكُمُ الله عزوجل أَنْ تَدْعُوهُ وَوَعَدَكُمْ أَنْ يَسْتَجِيبَ لَكُمْ» . ثُمَّ قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ملك يَوْمِ الدِّينِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ اللَّهُمَّ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْغَنِيُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ. أَنْزِلْ عَلَيْنَا الْغَيْثَ وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّةً وَبَلَاغًا إِلَى حِينٍ» ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمْ يَتْرُكِ الرَّفْعَ حَتَّى بَدَا بَيَاضُ إِبِطَيْهِ ثُمَّ حَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ وَقَلَبَ أَوْ حَوَّلَ رِدَاءَهُ وَهُوَ رَافِعُ يَدَيْهِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ وَنَزَلَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَأَنْشَأَ اللَّهُ سَحَابَةً فَرَعَدَتْ وَبَرَقَتْ ثُمَّ أَمْطَرَتْ بِإِذْنِ اللَّهِ فَلَمْ يَأْتِ مَسْجِدَهُ حَتَّى سَالَتِ السُّيُولُ فَلَمَّا رَأَى سُرْعَتَهُمْ إِلَى الْكن ضحك صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حَتَّى بَدَت نَوَاجِذه فَقَالَ: «أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قحط سالی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر کا حکم فرمایا تو اسے آپ کے لیے عید گاہ میں رکھ دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے ایک معین دن کا وعدہ فرمایا، وہ اس روز باہر نکلے، عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں جب سورج کا کنارہ ظاہر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے گئے، آپ منبر پر بیٹھ گئے اللہ کی کبریائی اور حمد بیان کی، پھر فرمایا: ”تم نے اپنے علاقوں کی قحط سالی اور بروقت بارشوں کے نہ ہونے کی شکایت کی ہے، اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم اس سے دعا کرو اور اس نے دعا کی قبولیت کا تم سے وعدہ کر رکھا ہے۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں دعا کی: ”ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے، جو بہت مہربان نہایت رحم والا، روز جزا کا مالک ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے، اے اللہ! تو اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقراء، ہم پر بارش برسا، اور جو تو (بارش) نازل فرمائے اسے ہمارے لیے ایک مدت تک قوت اور (مقاصد تک) پہنچنے کا ذریعہ بنا۔ “ پھر آپ نے ہاتھ بلند کیے اور انہیں بلند کرتے رہے حتیٰ کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی، پھر آپ نے لوگوں کی طرف اپنی پیٹھ کر دی اور اپنی چادر پلٹی، اور آپ نے ابھی تک ہاتھ اٹھائے رکھے، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور نیچے اتر کر دو رکعتیں پڑھیں، پس اللہ نے بادل کی ایک ٹکڑی بھیجی، گرج چمک پیدا ہوئی تو پھر اللہ کے حکم سے بارش ہونے لگی، آپ ابھی اپنی مسجد تک تشریف نہیں لائے تھے کہ نالے بہنے لگے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی جھونپڑیوں کی طرف دوڑتے ہوئے دیکھا تو آپ ہنسنے لگے حتیٰ کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور بے شک میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (1173 وقال: ھذا حديث غريب إسناده جيد.) [وصححه ابن حبان (604) والحاکم (328/1) ووافقه الذهبي.]»