الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2663
2663. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص سے سنا کہ دوسرے شخص کی مدح وثنا کررہا تھا اور اس کی تعریف میں مبالغہ آمیزی سے کام لے رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”تم نے اسے ہلاک کردیا۔“ یا فرمایا: ”تم نے اس شخص کی کمر توڑ دی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2663]
حدیث حاشیہ:
اگر انسان کی اس کے سامنے حد سے زیادہ تعریف کی جائے تو وہ تکبر اور خودپسندی کا شکار ہو جاتا ہے اور فخر و غرور میں مبتلا ہو کر خود کو مبالغہ آمیز تعریف کا مصداق خیال کرتا ہے، اس طرح شیطان کے دھوکے میں پھنس کر رہ جاتا ہے، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے حد سے زیادہ تعریف کرنے سے منع کیا ہے، ہاں جس قدر جانتا ہو اس کے مطابق تعریف میں کوئی حرج نہیں۔
اس طرح ابو بکرہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی دونوں احادیث میں تطبیق ممکن ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2663
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6060
6060. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو سنا کہ وہ دوسرے کی تعریف کر رہا تھا ااور تعریف کرتے وقت خوب مبالغہ آمیزی کر رہا تھا، آپ نے فرمایا: ”تم نے اسے ہلاک کر دیا۔“ یا فرمایا ”تم نے اس کی کمر توڑ دی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6060]
حدیث حاشیہ:
(1)
کسی کی تعریف میں مبالغہ کرنا بے ہودہ شاعروں اور خوشامدی لوگوں کا کام ہے، اس طرح کی تعریف سے دوسرا شخص مغرور ہو جاتا ہے بلکہ وہ جہل مرکب کا شکار ہو کر دنیوی اور دینی کمالات سے محروم رہ جاتا ہے، یہی اس کی ہلاکت اور کمر توڑنا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے منہ پر ان کی تعریف کرنا شروع کر دی تو حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے مٹی اٹھائی اور اس کے منہ پر دے ماری اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”جب تمھارا سامنا ایسے لوگوں سے ہو جو مدح سرائی اور خوشامد کرنے والے ہوں تو ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔
“ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4804) (2)
اگر کسی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کے اچھے کام کی مناسب تعریف کر دی جائے تو ان شاء اللہ جائز ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ بعض اوقات ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6060