حدثنا عمرو الناقد ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن عروة ، عن زينب بنت ام سلمة ، عن ام حبيبة ، عن زينب بنت جحش ، ان النبي صلى الله عليه وسلم استيقظ من نومه، وهو يقول: " لا إله إلا الله، ويل للعرب من شر قد اقترب فتح اليوم من ردم ياجوج وماجوج مثل هذه "، وعقد سفيان بيده عشرة، قلت: يا رسول الله، انهلك وفينا الصالحون، قال: نعم إذا كثر الخبث "،حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَيْقَظَ مِنْ نَوْمِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ "، وَعَقَدَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ عَشَرَةً، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ، قَالَ: نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ "،
عمرو ناقد نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان بن عینیہ نے زہری سے حدیث بیان کی، انھوں ن ے عروہ سے، انھوں نے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے اور انھوں نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نیند سے بیدار ہوئے جبکہ آپ فرمارہے تھے: "اللہ کے سواکوئی سچا معبود نہیں، عرب اس شر کی وجہ سے ہلاک ہوگئے جو قریب آپہنچا ہے۔آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں سے اس قدر جگہ کھل گئی ہے۔"اور سفیان نے اپنے ہاتھ سے دس کا اشارہ بنایا۔ (حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے عرض کی: ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے، پھر بھی ہم ہلاک ہوجائیں گے؟فرمایا؛"ہاں جب شر اور گندگی زیادہ ہوجائے گی۔"
حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نیند سے یہ فرماتے ہوئے بیدار ہوئے۔"اللہ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے، عربوں کے لیے اس شر سے تباہی ہے، جو قریب آچکا ہے، اس وقت یاجوج ماجوج کے بند میں اتنا سوراخ ہو چکا ہے۔"سفیان نے اس کی وضاحت کے لیے دس کے عدد کی گرہ لگائی، یعنی انگوٹھا اور شہادت کی انگلی سے حلقہ بنایا، میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم نیک بندوں کے موجود ہونے کے باوجود ہلاک ہو جائیں گے؟ آپ نے فرمایا:" ہاں" جب فسق و فجور کی خباثت و گندگی بڑھ جائے گی۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7235
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یاجوج ماجوج کون ہیں اور بند جوان کو روکے ہوئے ہے، وہ کہاں ہے، اس میں بہت اختلاف ہے، یہ حاشیہ اتنی تفصیل کا متحمل نہیں ہے، تفصیل کے طالب، مولاناآزاد کی تفسیر، سورہ کہف اور مولانا حفظ الرحمٰن کی کتاب، قصص القرآن کا مطالعہ کریں، یا حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ کی تفسیر دیکھیں حدیث کا مقصود یہ ہے کہ فتنوں کے ظہور کا آغاز قریب آچکا ہے، کیونکہ بند میں معمولی سا سوراخ ہوچکا ہے، جس سے وہ لوگ باہر نہیں نکل سکتے، لیکن یہ اس بات کی علامت ہے کہ فتنوں کا ظہور ہوا چاہتا ہے، فتنوں کا آغاز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت سے ہوا اور اس میں وسعت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے ہوئی اور عام تباہی وہلاکت اس وقت ہوگی جب فسق و فجور کا دور دورہ ہوگا، چند اچھے لوگ اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکیں گے، اس لیے وہ بھی ساتھ ہی ہلاک ہوجائیں گے، بعد میں ہر ایک کو جزاو سزا اپنے عملوں کے مطابق ملے گی، بند میں سوراخ معمولی ہوا ہے جس کو بعض نے دس کے عدد کے حلقہ سے تعبیر کیا ہے، جو بڑا ہوتا ہے اور بعض نے نوے یا سو کے عدد کے حلقہ سے جو انتہائی تنگ ہوتا ہے، درمیان میں خلا نہیں ہوتا ہے، مقصود اس کی حقارت وقلت کو بیان کرنا ہے۔