ابوزبیر نے کہا: ہمیں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک انصاری خاتون) حضرت ام سائب یا حضرت ام مسیب رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا: "ام سائب یا (فرمایا:) ام مسیب! تہیں کیا ہوا؟ کیا تم شدت سے کانپ رہی ہو؟" انہوں نے کہا: بخار ہے، اللہ تعالیٰ اس میں برکت نہ دے! آپ نے فرمایا: "بخار کو برا نہ کہو، کیونکہ یہ آدم کی اولاد کے گناہوں کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کرتی ہے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام السائب یا ام المسیب کے ہاں تشریف لے گئے اور پوچھا:"اے ام السائب! یا ام المسیب!تمھیں کیا ہوا ہے؟تم کانپ رہی ہو؟"اس نے جواب دیا:بخارہے،اللہ اس کو برکت نہ دے تو آپ نے فرمایا:"بخار کو برا نہ کہو،کیونکہ یہ انسان کے گناہ ختم کرتا ہے،جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کودور کرتی ہے۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6570
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: لاتسبي: کسی کو برا بھلا، اس سے پریشان ہو کر یا اکتا کر، اس کی تحقیر کے لیے کہا جاتا ہے۔ تو اس نے بخار کو ناپسند کرتے ہوئے بددعا دی، اس لیے آپ نے اس کو سب (گالی) سے تعبیر فرمایا۔ فوائد ومسائل: بھٹی اپنی حرارت اور گرمی سے لوہے کی میل کچیل اور زنگ کو ختم کر دیتی ہے، اسی طرح بخار اپنی حدت و شدت سے گناہ دور کر دیتا ہے۔ مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے، مسلمان کے لیے ہر قسم کی پریشانی، دکھ، تکلیف، رنج و الم اور غم و فکر کا باعث بننے والی چیز گناہوں کا کفارہ بنتی ہے۔ اس کے درجات و مراتب بڑھتے ہیں اور نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور انبیاء اور ان سے قریب تر لوگ زیادہ دکھ درد میں مبتلا ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے مراتب اور درجات زیادہ بلند ہیں اور ان کو اجروثواب زیادہ ملتا ہے۔