(خالد) بن حارث، یحییٰ بن سعید اور محمد بن جعفر، سب نے شعبہ سے اسی سند سے اس (سابقہ حدیث) کے مانند حدیث بیان کی، البتہ یحییٰ بن سعید کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپ نے بکریوں کی حفاظت، شکار اور کھیتی کی رکھوالی کے لیے کتا رکھنے کی ا جازت دی۔ یحییٰ کے سوا زرع (کھیتی) کا ذکر کسی روایت میں نہیں۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں۔ یحییٰ بن سعید کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کی حفاظت، شکار اور کھیتی کی رکھوالی کے لیے کتا رکھنے کی اجازت دی، یحییٰ کے سوا زرع (کھیتی) کا ذکر کسی نے نہیں کیا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 654
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کتا برتن میں منہ ڈال کر کوئی چیز چاٹ لے، پی لے تو اس کو گرا دیا جائے گا، برتن کو پہلی دفعہ مٹی سے مانجھا جائے گا اور پھر سات دفعہ پانی سے دھویا جائے گا۔ (وَعَفِّرُوهُ الثَّامِنَةَ بِالتُّرَابِ) کا مقصد ہے کہ مٹی سے صفائی کو شمار کرنے سے تعداد آٹھ دفعہ ہو جائے گی، یہ مقصد نہیں ہے کہ پہلے سات دفعہ پانی سے دھو کر، آٹھویں بار مٹی استعمال کرو کیونکہ اس طرح تو برتن کو بعد میں پھر پانی سے دھونا ہو گا اور تعداد آٹھ سے بڑھ جائے گی اور یہ معنی کہ آغاز مٹی سے کرو، کے بھی منافی ہو گا۔ اور جمہور ائمہ کے نزدیک برتن سات دفعہ دھونا ضروری ہے اور یہ حکم صرف کتے کے جوٹھے کے لیے ہے کیونکہ اس کے جراثیم، انتہائی مہلک ہوتے ہیں صرف امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تین دفعہ دھونے کو ضروری قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فعل کو دلیل بناتے ہیں حالانکہ مرفوع روایت کی موجودگی میں کسی صحابی کا فعل دلیل نہیں بن سکتا۔ نیز حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سات دفعہ دھونے کا حکم بھی ثابت ہے لہٰذا ان کا وہی فعل وقول راجح ہو گا جو ان کی مرفوع روایت کے مطابق ہے اور کتا جمہور کے نزدیک نجس ہے اس لیے اس کا جوٹھا ناپاک ہے لوگوں کی سہولت اور آسانی کے لیے حاجت مند لوگوں کو کتا رکھنے کی اجازت دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ پاک ہے جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ایک قول طہارت کا نقل کیا جاتا ہے کہ سات دفعہ دھونے کا حکم تعبدی ہے، جس کی حکمت ہماری سمجھ سے بالا ہے، ویسے کتا پاک ہے لیکن بعض مالکی کتے کو نجس العین قرار دیتے ہیں۔