الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
The Book of the Merits of the Companions
28. باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
28. باب: سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔
Chapter: The Virtues Of Abu Dharr (RA)
حدیث نمبر: 6362
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني إبراهيم بن محمد بن عرعرة السامي ، ومحمد بن حاتم ، وتقاربا في سياق الحديث، واللفظ لابن حاتم، قالا: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا المثنى بن سعيد ، عن ابي جمرة ، عن ابن عباس ، قال: " لما بلغ ابا ذر مبعث النبي صلى الله عليه وسلم بمكة، قال لاخيه: اركب إلى هذا الوادي فاعلم لي علم هذا الرجل الذي يزعم انه ياتيه الخبر من السماء، فاسمع من قوله، ثم ائتني فانطلق الآخر حتى قدم مكة وسمع من قوله، ثم رجع إلى ابي ذر، فقال: رايته يامر بمكارم الاخلاق، وكلاما ما هو بالشعر، فقال: ما شفيتني فيما اردت فتزود، وحمل شنة له فيها ماء حتى قدم مكة، فاتى المسجد فالتمس النبي صلى الله عليه وسلم ولا يعرفه، وكره ان يسال عنه حتى ادركه يعني الليل، فاضطجع فرآه علي فعرف انه غريب، فلما رآه تبعه، فلم يسال واحد منهما صاحبه عن شيء حتى اصبح ثم احتمل قربته، وزاده إلى المسجد، فظل ذلك اليوم ولا يرى النبي صلى الله عليه وسلم حتى امسى، فعاد إلى مضجعه فمر به علي، فقال: ما انى للرجل ان يعلم منزله، فاقامه فذهب به معه، ولا يسال واحد منهما صاحبه عن شيء حتى إذا كان يوم الثالث، فعل مثل ذلك، فاقامه علي معه، ثم قال له: الا تحدثني ما الذي اقدمك هذا البلد، قال: إن اعطيتني عهدا وميثاقا لترشدني؟ فعلت ففعل، فاخبره، فقال: فإنه حق وهو رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا اصبحت فاتبعني، فإني إن رايت شيئا اخاف عليك قمت كاني اريق الماء، فإن مضيت فاتبعني، حتى تدخل مدخلي، ففعل فانطلق يقفوه، حتى دخل على النبي صلى الله عليه وسلم ودخل معه، فسمع من قوله، واسلم مكانه، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: ارجع إلى قومك فاخبرهم حتى ياتيك امري، فقال: والذي نفسي بيده، لاصرخن بها بين ظهرانيهم، فخرج حتى اتى المسجد، فنادى باعلى صوته اشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله وثار القوم، فضربوه حتى اضجعوه، فاتى العباس فاكب عليه، فقال: ويلكم الستم تعلمون انه من غفار، وان طريق تجاركم إلى الشام عليهم، فانقذه منهم، ثم عاد من الغد بمثلها وثاروا إليه فضربوه، فاكب عليه العباس فانقذه ".وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ السَّامِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَتَقَارَبَا فِي سِيَاقِ الْحَدِيثِ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ حَاتِمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ، قَالَ لِأَخِيهِ: ارْكَبْ إِلَى هَذَا الْوَادِي فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ، فَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ، ثُمَّ ائْتِنِي فَانْطَلَقَ الْآخَرُ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ، فَقَالَ: رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ، وَكَلَامًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ، فَقَالَ: مَا شَفَيْتَنِي فِيمَا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ، وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِيهَا مَاءٌ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَأَتَى الْمَسْجِدَ فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَعْرِفُهُ، وَكَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ حَتَّى أَدْرَكَهُ يَعْنِي اللَّيْلَ، فَاضْطَجَعَ فَرَآهُ عَلِيٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ، فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ، فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَصْبَحَ ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ، وَزَادَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَظَلَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَلَا يَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَمْسَى، فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ، فَقَالَ: مَا أَنَى لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ، فَأَقَامَهُ فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ، وَلَا يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ، فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، فَأَقَامَهُ عَلِيٌّ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: أَلَا تُحَدِّثُنِي مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ هَذَا الْبَلَدَ، قَالَ: إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَمِيثَاقًا لَتُرْشِدَنِّي؟ فَعَلْتُ فَفَعَلَ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: فَإِنَّهُ حَقٌّ وَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتَّبِعْنِي، فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْكَ قُمْتُ كَأَنِّي أُرِيقُ الْمَاءَ، فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتَّبِعْنِي، حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِي، فَفَعَلَ فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ، حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ مَعَهُ، فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ، وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَثَارَ الْقَوْمُ، فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ، فَأَتَى الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: وَيْلَكُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ، وَأَنَّ طَرِيقَ تُجَّارِكُمْ إِلَى الشَّامِ عَلَيْهِمْ، فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ، ثُمَّ عَادَ مِنَ الْغَدِ بِمِثْلِهَا وَثَارُوا إِلَيْهِ فَضَرَبُوهُ، فَأَكَبَّ عَلَيْهِ الْعَبَّاسُ فَأَنْقَذَهُ ".
ابو جمرہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ جب سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں مبعوث ہونے کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ سوار ہو کر اس وادی کو جا اور اس شخص کو دیکھ کر آ جو کہتا ہے مجھے آسمان سے خبر آتی ہے، ان کی بات سن پھر میرے پاس آ۔ وہ روانہ ہوا، یہاں تک کہ مکہ میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا، پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ کر گیا اور بولا کہ میں نے اس شخص کو دیکھا، وہ اچھی خصلتوں کا حکم کرتا ہے اور ایک کلام سناتا ہے جو شعر نہیں ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس سے تسلی نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے خود زادراہ لیا اور پانی کی ایک مشک لی یہاں تک کہ مکہ میں آئے اور مسجدالحرام میں داخل ہوئے۔ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہ تھے اور انہوں نے پوچھنا بھی مناسب نہ جانا، یہاں تک کہ رات ہو گئی اور وہ لیٹ رہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھا اور پہچانا کہ کوئی مسافر ہے پھر ان کے پیچھے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہیں کی یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پھر وہ اپنا توشہ اور مشک مسجد میں اٹھا لائے اور سارا دن وہاں رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام تک نہ دیکھا۔ پھر وہ اپنے سونے کی جگہ میں چلے گئے۔ وہاں سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ گزرے اور کہا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اس شخص کو اپنا ٹھکانہ معلوم ہو۔ پھر ان کو کھڑا کیا اور ان کو ساتھ لے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہ کی۔ پھر تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے ساتھ کھڑا کیا، پھر کہا کہ تم مجھ سے وہ بات کیوں نہیں کہتے جس کے لئے تم اس شہر میں آئے ہو؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے عہد اور وعدہ کرتے ہو کہ راہ بتلاؤ گے تو میں بتاتا ہوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تو انہوں نے بتایا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ شخص سچے ہیں اور وہ بیشک اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تم صبح کو میرے ساتھ چلنا، اگر میں کوئی خوف کی بات دیکھوں گا جس میں تمہاری جان کا ڈر ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا جیسے کوئی پانی بہاتا ہے (یعنی پیشاب کا بہانہ کروں گا) اور اگر چلا جاؤں تو تم بھی میرے پیچھے پیچھے چلے آنا۔ جہاں میں گھسوں وہاں تم بھی گھس آنا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور ان کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ پہنچے۔ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور اسی جگہ مسلمان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی قوم کے پاس جا اور ان کو دین کی خبر کر یہاں تک کہ میرا حکم تجھے پہنچے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں تو یہ بات (یعنی دین قبول کرنے کی) مکہ والوں کو پکار کر سنا دوں گا۔ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نکل کر مسجد میں آئے اور چلا کر بولے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور ان کو مارتے مارتے لٹا دیا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ وہاں آئے اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ پر جھکے اور لوگوں سے کہا کہ تمہای خرابی ہو، تم نہیں جانتے کہ یہ شخص (قوم) غفار کا ہے اور تمہارا سوداگری کا راستہ شام کی طرف (قوم) غفار کے ملک پر سے ہے (تو وہ تمہاری تجارت بند کر دیں گے)۔ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں سے چھڑا لیا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے دوسرے دن پھر ویسا ہی کیا اور لوگ دوڑے اور مارا اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آئے اور انہیں چھڑا لیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جب سیدنا ابوذر ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں مبعوث ہونے کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ سوار ہو کر اس وادی کو جا اور اس شخص کو دیکھ کر آ جو کہتا ہے مجھے آسمان سے خبر آتی ہے، ان کی بات سن پھر میرے پاس آ۔ وہ روانہ ہوا، یہاں تک کہ مکہ میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا، پھر سیدنا ابوذر ؓ کے پاس لوٹ کر گیا اور بولا کہ میں نے اس شخص کو دیکھا، وہ اچھی خصلتوں کا حکم کرتا ہے اور ایک کلام سناتا ہے جو شعر نہیں ہے۔ سیدنا ابوذر ؓ نے کہا کہ مجھے اس سے تسلی نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے خود زادراہ لیا اور پانی کی ایک مشک لی یہاں تک کہ مکہ میں آئے اور مسجدالحرام میں داخل ہوئے۔ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہ تھے اور انہوں نے پوچھنا بھی مناسب نہ جانا، یہاں تک کہ رات ہو گئی اور وہ لیٹ رہے۔ سیدنا علی ؓ نے ان کو دیکھا اور پہچانا کہ کوئی مسافر ہے پھر ان کے پیچھے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہیں کی یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پھر وہ اپنا توشہ اور مشک مسجد میں اٹھا لائے اور سارا دن وہاں رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام تک نہ دیکھا۔ پھر وہ اپنے سونے کی جگہ میں چلے گئے۔ وہاں سے سیدنا علی ؓ گزرے اور کہا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اس شخص کو اپنا ٹھکانہ معلوم ہو۔ پھر ان کو کھڑا کیا اور ان کو ساتھ لے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہ کی۔ پھر تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اور سیدنا علی ؓ نے ان کو اپنے ساتھ کھڑا کیا، پھر کہا کہ تم مجھ سے وہ بات کیوں نہیں کہتے جس کے لئے تم اس شہر میں آئے ہو؟ سیدنا ابوذر ؓ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے عہد اور وعدہ کرتے ہو کہ راہ بتلاؤ گے تو میں بتاتا ہوں۔ سیدنا علی ؓ نے وعدہ کیا تو انہوں نے بتایا۔ سیدنا علی ؓ نے کہا کہ وہ شخص سچے ہیں اور وہ بیشک اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تم صبح کو میرے ساتھ چلنا، اگر میں کوئی خوف کی بات دیکھوں گا جس میں تمہاری جان کا ڈر ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا جیسے کوئی پانی بہاتا ہے (یعنی پیشاب کا بہانہ کروں گا) اور اگر چلا جاؤں تو تم بھی میرے پیچھے پیچھے چلے آنا۔ جہاں میں گھسوں وہاں تم بھی گھس آنا۔ سیدنا ابوذر ؓ نے ایسا ہی کیا اور ان کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ سیدنا علی ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور سیدنا ابوذر ؓ بھی ان کے ساتھ پہنچے۔ پھر سیدنا ابوذر ؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور اسی جگہ مسلمان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی قوم کے پاس جا اور ان کو دین کی خبر کر یہاں تک کہ میرا حکم تجھے پہنچے۔ سیدنا ابوذر ؓ نے کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں تو یہ بات (یعنی دین قبول کرنے کی)مکہ والوں کو پکار کر سنا دوں گا۔ پھر سیدنا ابوذر ؓ نکل کر مسجد میں آئے اور چلا کر بولے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور ان کو مارتے مارتے لٹا دیا۔ سیدنا عباس ؓ وہاں آئے اور سیدنا ابوذر ؓ پر جھکے اور لوگوں سے کہا کہ تمہای خرابی ہو، تم نہیں جانتے کہ یہ شخص (قوم) غفار کا ہے اور تمہارا سوداگری کا راستہ شام کی طرف (قوم) غفار کے ملک پر سے ہے (تو وہ تمہاری تجارت بند کر دیں گے)۔ پھر سیدنا ابوذر ؓ کو ان لوگوں سے چھڑا لیا۔ سیدنا ابوذر ؓ نے دوسرے دن پھر ویسا ہی کیا اور لوگ دوڑے اور مارا اور سیدنا عباس ؓ آئے اور انہیں چھڑا لیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2474

   صحيح البخاري3861عبد الله بن عباسارجع إلى قومك فأخبرهم حتى يأتيك أمري قال والذي نفسي بيده لأصرخن بها بين ظهرانيهم فخرج حتى أتى المسجد فنادى بأعلى صوته أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ثم قام القوم فضربوه حتى أضجعوه وأتى العباس فأكب عليه قال ويلكم ألستم تعلمون أنه من غفار
   صحيح مسلم6362عبد الله بن عباسيأمر بمكارم الأخلاق وكلاما ما هو بالشعر فقال ما شفيتني فيما أردت فتزود وحمل شنة له فيها ماء حتى قدم مكة فأتى المسجد فالتمس النبي ولا يعرفه وكره أن يسأل عنه حتى أدركه يعني الليل فاضطجع فرآه علي فعرف أنه غريب فلما رآه تبعه فلم يسأل واحد منهما صاحبه عن شيء ح
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6362 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6362  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
ماشفيتني فيمااردت:
میری مطلوبہ معلومات تسلی بخش طور پر نہیں لائے ہو۔
(2)
حمل شنة:
اپنے ساتھ پانی کا مشکیزہ لیا اور زادراہ بھی لیا،
لیکن یہ چیزیں راستہ میں ہی ختم ہو گئیں،
اس لیے مکہ میں صرف زمزم کے پانی پر گزارہ کرتے رہے۔
(3)
مااني للرجل ان يعلم منزله:
کہ اس آدمی کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ وہ اپنی منزل کو پا لیتا،
یعنی مکہ میں اس کو ابھی اقامت کے لیے جگہ نہیں ملی،
یا میں نے اسے کل جس جگہ ٹھہرایا تھا،
اس نے اس کو نہیں پہچانا کہ آج بھی وہ چلا جاتا۔
(4)
كاني اريق الماء گویا کہ میں پانی بہا رہا ہوں،
یعنی پیشاب کر رہا ہوں اور بعض روایتوں میں ہے۔
(5)
فاني اصلح نعلي:
گویا کہ میں اپنی جوتی درست کر رہا ہوں۔
فوائد ومسائل:
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ حضرت ابوذر سے عبداللہ بن صامت اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نقل کرتے ہیں اور دونوں کی تفصیلات میں کچھ اختلافات ہیں،
اصل واقعہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابوذر اپنی اقامت گاہ سے زادراہ اور پانی کا مشکیزہ لے کر چلے ہیں،
جو مکہ پہنچنے تک ختم ہو گیا اور انہوں نے ایک آدمی کو ناتواں اور ضعیف سمجھ کر،
آپ کے بارے میں سوال کیا تو اس نے خلاف توقع لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکا دیا،
پھر انہوں نے کسی سے نہیں پوچھا،
اس طرح کئی دن گزر گئے اور وہ زمزم کے پانی پر گزارہ کرتے رہے،
آخر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود ہی ان سے آنے کا مقصد پوچھا تو انہوں نے پہلے واقعہ سے ڈرتے ہوئے کہا،
اگر میری راہنمائی کرنے کا پختہ وعدہ کرو تو میں تمہیں اپنی آمد کا مقصد بتاتا ہوں،
اس طرح وہ اسلام لے آئے اور رات کے وقت وہ طواف کے لیے نکلے تو ان عورتوں والا واقعہ پیش آ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر بھی طواف کے لیے آئے تو انہوں نے ان کو پہچان لیا،
اس لیے آپ کو اسلامی طریقہ کے مطابق سلام کیا اور آپ کو رسول اللہ کہہ کر پکارا،
اور آپ نے ابوذر سے ان کے احوال پوچھے اور اس کے بعد ابوذر کچھ دن مکہ میں رہے اور حضرت عباس کو بھی ان سے واقفیت ہو گئی،
پھر وہ رخصت ہونے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں مکہ کے قریبی علاقہ سے واپس اپنی قوم میں جا کر اسلام کی تبلیغ کا مشورہ دیا اور یہ بھی بتا دیا،
میں بھی جلد ہجرت کر کے مدینہ منورہ آنے والا ہوں تو واپسی کے وقت حضرت ابوذر نے اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا اور انہیں دوبارہ مشرکین مکہ نے مارا،
جس سے حضرت عباس نے انہیں خلاصی دلوائی اور وہ واپس اپنے بھائی اور ماں کے پاس چلے گئے،
ان دونوں کو اسلام کی تبلیغ کی،
جس سے وہ مسلمان ہو گئے تو ان کو لے کر اپنی قوم کے پاس چلے گئے،
ان کو اسلام کی تبلیغ کی،
آدھی قوم مسلمان ہو گئی اور باقی آدھی قوم آپ کی ہجرت کے بعد مسلمان ہو گئی اور یہ لوگ مکمل طور پر جنگ بدر کے بعد مسلمان ہوئے ہیں،
کیونکہ بعض تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان رحضۃ جنگ بدر میں مشرکین مکہ کے ساتھ شامل تھا،
(اصابۃ ج 1 ص 301،
تکملہ ج 5 ص 219)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6362   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3861  
3861. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب ابوذر ؓ کو نبی ﷺ کی بعثت کے متعلق علم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اس وادی (مکہ) جانے کے لیے سواری تیار کرو اور اس آدمی کے متعلق مجھے معلومات فراہم کرو جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا، پھر میرے پاس آنا، چنانچہ ان کا بھائی وہاں سے روانہ ہوا اور رسول اللہ ﷺ کی باتیں سن کر واپس آیا اور حضرت ابوذر ؓ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے وہ لوگوں کو اچھے اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ حضرت ابوذر ؓ نے فرمایا کہ میرا جو ارادہ تھا تو نے مجھے اس کے متعلق مطمئن نہیں کیا۔ آخر انہوں نے خود رخت سفر باندھا۔ انہوں نے اپنے ساتھ زاد سفر اور پانی کا مشکیزہ لیا اور مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مسجد حرام میں حاضری دی اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3861]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوذر غفاری ؓ بلند مرتبہ تارک الدنیا مہاجرین کرام میں سے ہیں۔
ان کا نام جندب تھا، مکہ شریف میں شروع اسلام لانے والوں میں ان کا پانچواں نمبر ہے۔
پھر یہ اپنی قوم میں چلے گئے تھے اور مدت تک وہاں رہے، غزوئہ خندق کے موقعہ پر خدمت نبوی میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تھے اور پھر مقام زبدہ میں قیام کیا اور32ھ میں خلافت عثمانی میں ان کا زبدہ ہی میں انتقال ہوا, یہ حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی عبادت کرتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3861   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3861  
3861. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب ابوذر ؓ کو نبی ﷺ کی بعثت کے متعلق علم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اس وادی (مکہ) جانے کے لیے سواری تیار کرو اور اس آدمی کے متعلق مجھے معلومات فراہم کرو جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا، پھر میرے پاس آنا، چنانچہ ان کا بھائی وہاں سے روانہ ہوا اور رسول اللہ ﷺ کی باتیں سن کر واپس آیا اور حضرت ابوذر ؓ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے وہ لوگوں کو اچھے اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ حضرت ابوذر ؓ نے فرمایا کہ میرا جو ارادہ تھا تو نے مجھے اس کے متعلق مطمئن نہیں کیا۔ آخر انہوں نے خود رخت سفر باندھا۔ انہوں نے اپنے ساتھ زاد سفر اور پانی کا مشکیزہ لیا اور مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مسجد حرام میں حاضری دی اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3861]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابوذر ؓ کا نام جندب ہے۔
اسلام لانے میں پہل کی اور تکلیفیں اٹھائیں، پھر اپنی قوم میں چلے گئے اور مدت تک وہیں رہے۔
غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
آپ بلند مرتبہ، تارک دنیا اور مہاجرین کرام میں سے ہیں۔
زندگی کے آخری ایام مقام ربذہ میں گزارے۔
حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں فوت ہوئے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔

جب معلومات لینے کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو آپ اپنا مقصد کسی سے ظاہر نہ کرتے کیونکہ اس طرح مشرکین تکلیف پہنچانے میں مزید دلیر ہوجاتے۔
وہ نہیں چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کا دین ظاہر ہو، اس لیے اگر کوئی شخص مشرکین سے رسول اللہ ﷺ کے متعلق پوچھتا تو وہ اسے بتاتے نہیں تھے۔
وہ لوگوں کو آپ کے پاس جانے سے روکتے تھے یا اس سے دھوکا کرتے تاکہ واپس چلاجائے۔

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوذر ؓ رات کے وقت حضرت ابوبکر ؓ صدیق ؓ سے طواف میں ملے۔
ان روایات میں کوئی تضاد اور مخالفت نہیں۔
ممکن ہےکہ حضرت ابوذر ؓ پہلے حضرت علی ؓ سے ملے ہوں، پھر رات کے وقت دوران طواف میں حضرت ابوبکر ؓ سے ملاقات ہوئی ہو۔
(فتح الباري: 220/7۔
)

واللہ اعلم۔
اس حدیث کے مزید فوائد وحدیث: 3522 میں ملاحظہ کریں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3861   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.