حدثني الحسن بن علي الحلواني ، وابو بكر بن النضر ، وعبد بن حميد ، قال: حدثني، وقال الآخران: حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد ، حدثني ابي ، عن صالح ، عن ابن شهاب ، اخبرني محمد بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: " ارسل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستاذنت عليه وهو مضطجع معي في مرطي، فاذن لها، فقالت: يا رسول الله، إن ازواجك ارسلنني إليك يسالنك العدل في ابنة ابي قحافة، وانا ساكتة، قالت: فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي بنية الست تحبين ما احب، فقالت: بلى، قال: فاحبي هذه، قالت: فقامت فاطمة حين سمعت ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرجعت إلى ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرتهن بالذي، قالت: وبالذي قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلن لها: ما نراك اغنيت عنا من شيء، فارجعي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقولي له: إن ازواجك ينشدنك العدل في ابنة ابي قحافة، فقالت فاطمة: والله لا اكلمه فيها ابدا، قالت عائشة: فارسل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم زينب بنت جحش زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وهي التي كانت تساميني منهن في المنزلة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم ار امراة قط خيرا في الدين من زينب، واتقى لله واصدق حديثا، واوصل للرحم، واعظم صدقة، واشد ابتذالا لنفسها في العمل الذي تصدق به، وتقرب به إلى الله تعالى ما عدا سورة من حدة، كانت فيها تسرع منها الفيئة، قالت: فاستاذنت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم مع عائشة في مرطها على الحالة التي دخلت فاطمة عليها وهو بها، فاذن لها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن ازواجك ارسلنني إليك يسالنك العدل في ابنة ابي قحافة، قالت: ثم وقعت بي، فاستطالت علي، وانا ارقب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وارقب طرفه، هل ياذن لي فيها؟ قالت: فلم تبرح زينب حتى عرفت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يكره ان انتصر، قالت: فلما وقعت بها لم انشبها حتى انحيت عليها، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وتبسم إنها ابنة ابي بكر ".حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: " أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَيْهِ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ مَعِي فِي مِرْطِي، فَأَذِنَ لَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي إِلَيْكَ يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، وَأَنَا سَاكِتَةٌ، قَالَتْ: فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْ بُنَيَّةُ أَلَسْتِ تُحِبِّينَ مَا أُحِبُّ، فَقَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَأَحِبِّي هَذِهِ، قَالَتْ: فَقَامَتْ فَاطِمَةُ حِينَ سَمِعَتْ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَجَعَتْ إِلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْهُنَّ بِالَّذِي، قَالَتْ: وَبِالَّذِي قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَ لَهَا: مَا نُرَاكِ أَغْنَيْتِ عَنَّا مِنْ شَيْءٍ، فَارْجِعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُولِي لَهُ: إِنَّ أَزْوَاجَكَ يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: وَاللَّهِ لَا أُكَلِّمُهُ فِيهَا أَبَدًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْهُنَّ فِي الْمَنْزِلَةِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ أَرَ امْرَأَةً قَطُّ خَيْرًا فِي الدِّينِ مِنْ زَيْنَبَ، وَأَتْقَى لِلَّهِ وَأَصْدَقَ حَدِيثًا، وَأَوْصَلَ لِلرَّحِمِ، وَأَعْظَمَ صَدَقَةً، وَأَشَدَّ ابْتِذَالًا لِنَفْسِهَا فِي الْعَمَلِ الَّذِي تَصَدَّقُ بِهِ، وَتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مَا عَدَا سَوْرَةً مِنْ حِدَّةٍ، كَانَتْ فِيهَا تُسْرِعُ مِنْهَا الْفَيْئَةَ، قَالَتْ: فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَائِشَةَ فِي مِرْطِهَا عَلَى الْحَالَةِ الَّتِي دَخَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا وَهُوَ بِهَا، فَأَذِنَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي إِلَيْكَ يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، قَالَتْ: ثُمَّ وَقَعَتْ بِي، فَاسْتَطَالَتْ عَلَيَّ، وَأَنَا أَرْقُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَرْقُبُ طَرْفَهُ، هَلْ يَأْذَنُ لِي فِيهَا؟ قَالَتْ: فَلَمْ تَبْرَحْ زَيْنَبُ حَتَّى عَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَكْرَهُ أَنْ أَنْتَصِرَ، قَالَتْ: فَلَمَّا وَقَعْتُ بِهَا لَمْ أَنْشَبْهَا حَتَّى أَنْحَيْتُ عَلَيْهَا، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَتَبَسَّمَ إِنَّهَا ابْنَةُ أَبِي بَكْرٍ ".
صالح نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے محمد بن عبدالرحمان بن حارث بن ہشام نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ انہوں نے اجازت مانگی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ میری چادر میں لیٹے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے، وہ چاہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ابوقحافہ کی بیٹی میں انصاف کریں (یعنی جتنی محبت ان سے رکھتے ہیں اتنی ہی اوروں سے رکھیں۔ اور یہ امر اختیاری نہ تھا اور سب باتوں میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف کرتے تھے) اور میں خاموش تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بیٹی! کیا تو وہ نہیں چاہتی جو میں چاہوں؟ وہ بولیں کہ یا رسول اللہ! میں تو وہی چاہتی ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو عائشہ سے محبت رکھ۔ یہ سنتے ہی فاطمہ اٹھیں اور ازواج مطہرات کے پاس گئیں اور ان سے جا کر اپنا کہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا بیان کیا۔ وہ کہنے لگیں کہ ہم سمجھتیں ہیں کہ تم ہمارے کچھ کام نہ آئیں، اس لئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں (ابوقحافہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد تھے تو عائشہ رضی اللہ عنہا کے دادا ہوئے اور دادا کی طرف نسبت دے سکتے ہیں)۔ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو اب عائشہ رضی اللہ عنہا کے مقدمہ میں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو نہ کروں گی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور میرے برابر کے مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہی تھیں اور میں نے کوئی عورت ان سے زیادہ دیندار، اللہ سے ڈرنے والی، سچی بات کہنے والی، ناطہٰ جوڑنے والی اور خیرات کرنے والی نہیں دیکھی اور نہ ان سے بڑھ کر کوئی عورت اللہ تعالیٰ کے کام میں اور صدقہ میں اپنے نفس پر زور ڈالتی تھی، فقط ان میں ایک تیزی تھی (یعنی غصہ تھا) اس سے بھی وہ جلدی پھر جاتیں اور مل جاتیں اور نادم ہو جاتی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حال میں اجازت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری چادر میں تھے، جس حال میں سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں۔ پھر یہ کہہ کر مجھ پر آئیں اور زبان درازی کی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ کو دیکھ رہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں، یہاں تک کہ مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دینے سے برا نہیں مانیں گے، تب تو میں بھی ان پر آئی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کو لاجواب کر دیا یا ان پر غالب آ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ؓن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃالزہراء ؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ انہوں نے اجازت مانگی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ میری چادر میں لیٹے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے، وہ چاہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ابوقحافہ کی بیٹی میں انصاف کریں (یعنی جتنی محبت ان سے رکھتے ہیں اتنی ہی اوروں سے رکھیں۔ اور یہ امر اختیاری نہ تھا اور سب باتوں میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف کرتے تھے) اور میں خاموش تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بیٹی! کیا تو وہ نہیں چاہتی جو میں چاہوں؟ وہ بولیں کہ یا رسول اللہ! میں تو وہی چاہتی ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو عائشہ سے محبت رکھ۔ یہ سنتے ہی فاطمہ اٹھیں اور ازواج مطہرات کے پاس گئیں اور ان سے جا کر اپنا کہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا بیان کیا۔ وہ کہنے لگیں کہ ہم سمجھتیں ہیں کہ تم ہمارے کچھ کام نہ آئیں، اس لئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں (ابوقحافہ سیدنا ابوبکر ؓ کے والد تھے تو عائشہ ؓ کے دادا ہوئے اور دادا کی طرف نسبت دے سکتے ہیں)۔ سیدہ فاطمۃالزہراء ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو اب عائشہ ؓ کے مقدمہ میں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو نہ کروں گی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے ام المؤمنین زینب بنت جحش ؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور میرے برابر کے مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہی تھیں اور میں نے کوئی عورت ان سے زیادہ دیندار، اللہ سے ڈرنے والی، سچی بات کہنے والی، ناطہٰ جوڑنے والی اور خیرات کرنے والی نہیں دیکھی اور نہ ان سے بڑھ کر کوئی عورت اللہ تعالیٰ کے کام میں اور صدقہ میں اپنے نفس پر زور ڈالتی تھی، فقط ان میں ایک تیزی تھی (یعنی غصہ تھا) اس سے بھی وہ جلدی پھر جاتیں اور مل جاتیں اور نادم ہو جاتی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حال میں اجازت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری چادر میں تھے، جس حال میں سیدہ فاطمۃالزہراء ؓ آئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں۔ پھر یہ کہہ کر مجھ پر آئیں اور زبان درازی کی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ کو دیکھ رہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں، یہاں تک کہ مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دینے سے برا نہیں مانیں گے، تب تو میں بھی ان پر آئی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کو لاجواب کر دیا یا ان پر غالب آ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ یہ ابوبکر ؓ کی بیٹی ہے۔(باپ کی وضاحت وعلم کی وارث ہے)
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6290
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) هو مضطجع معي في مرطي: آپ میرے ساتھ، میری چادر میں لیٹے ہوئے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے، قریبی عزیز کی موجودگی میں میاں بیوی اپنے کپڑوں میں، ایک چادر میں ایک جگہ لیٹ سکتے ہیں، بشرطیکہ اس معاشرہ میں یہ چیز معیوب نہ ہو، عربوں کے ہاں خاص کر اس دور میں یہ اسلوب حیات معیوب نہ تھا۔ جبکہ آج کل مشرقی معاشرہ میں یہ معیوب ہے۔ (2) يسئالنك يا ينشدنك العدل في ابنة ابي قحافة: ابو قحافہ کی بیٹی کے سلسلہ میں عدل و مساوات کا مطالبہ کرتی ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کے دادے کی طرف منسوب کیا گیا ہے، ازواج مطہرات کا تصور یہ تھا کہ دلی محبت و پیار میں بھی یکسانیت اور مساوات ہو، تاکہ صحابہ کرام تحفے تحائف میں سب کو شریک کریں، وہ عائشہ سے زیادہ محبت کی بنا پر ان کو ترجیح نہ دیں، یا آپ ان کو حکم دیں جیسا کہ دوسری روایت میں صراحت موجود ہے کہ وہ ہدیہ دینے کے لیے حضرت عائشہ کی باری کا انتظار نہ کریں، حالانکہ طبعی اور شرعی طور پر دونوں باتیں ممکن نہیں، طبعی اور قدرتی طور پر انسان کے دل میں سب کی محبت و پیار یکساں نہیں ہو سکتا، اس لیے شریعت انسان کو دلی محبت میں یکسانیت اور برابری کا حکم نہیں دیتی، اللہ کا فرمان ہے: (وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ)(النساء: 129) "اور اگر تم اپنی بیویوں کے درمیان دلی محبت میں عدل کرنا بھی چاہو تو ایسا ہرگز نہیں کر سکو گے، اس لیے تم سے صرف اس قدر مطلوب ہے۔ " (فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ)(النساء: 129) "تم ایک کی طرف پوری طرح مائل نہ ہو جاؤ۔ " اس طرح یہ بات اخلاقی طور پر پسندیدہ نہیں ہے کہ انسان لوگوں کو تحائف لینے کے سلسلہ میں ہدایات دیتا پھرے کہ یہ سمجھا جائے، یہ تحائف لینے کا خواہاں ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کریمانہ اخلاق کی بناء پر، صحابہ کرام کو ان کی مرضی اور اختیار پر رہنے دینا چاہتے تھے، ان کے اختیار کو محدود یا پابند نہیں کرنا چاہتے تھے، نیز ازواج مطہرات کا عدل کا مطالبہ کرنا نعوذ باللہ ظلم و جور کے مقابلہ میں نہ تھا کہ وہ یہ تصور کرتی ہوں، آپ ان پر ظلم و ستم ڈھاتے ہیں، بلکہ اپنے تصور کے مطابق دلی محبت و پیار اور تحائف کی آمد میں برابری چاہتی تھیں، جو عدل و انصاف کا تقاضا یا حصہ نہیں ہے۔ (3) كانت تساميني: وہ مقام و منزلت میں میری ہم پلہ تھیں۔ (4) اشد ابتذالا لنفسها: وہ کام کاج میں اپنے آپ کو بہت مشغول رکھتی تھیں، اگرچہ اس میں کلفت و مشقت ہی برداشت کرنا پڑے، سورة: جوش، اشتعال، حد: تیزی گرمی، یعنی انہیں غصہ بہت جلد آتا تھا، مزاج میں تلخی اور شدت تھی۔ (5) تسرع منها الفيئة: یعنی جس طرح غصہ جلد آتا تھا، اس طرح جلد ہی غصہ اتر جاتا تھا اور جلد ہی اعتدال و توازن قائم ہو جاتا تھا۔ (6) وقعت بي: مجھ پر برسیں، مجھے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا۔ (7) استطالت علي: مجھ پر زبان درازی کی۔ (8) لم أنشبها: میں نے اسے ٹھہرنے نہ دیا، میرا مقابلہ نہ کر سکی۔ (9) حتي انحيت عليها: جب میں نے ان کا رخ کیا، ان کو نشانہ پر لیا، اگلی روایت میں ہے۔ (10) اثخنتها: میں نے ان کو خوب گھائل کیا، بہت زخم لگائے، یعنی ان پر غلبہ پا لیا، وہ ہار گئیں۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات میں طبعی اور قدرتی حد تک منافست موجود تھی، لیکن وہ حد اعتدال سے تجاوز نہیں کرتی تھیں، اس لیے وہ ایک دوسری کی خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت زینب کی خوبیوں کا کھلے دل سے اظہار فرمایا ہے اور ان کی طبعی حدت و تیزی کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا، بلکہ واضح کیا ہے کہ یہ تیزی بھی عارضی ہوتی تھی جو جلدی ہی اتر جاتی تھی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی نظر محض دوسروں کے عیوب و نقائص پر ہی نہیں ہونی چاہیے، اس کی خوبیوں اور ہنر و کمال پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور اس کا اعتراف و اظہار بھی کرنا چاہیے۔