الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
The Book of Virtues
37. باب تَوْقِيرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرْكِ إِكْثَارِ سُؤَالِهِ عَمَّا لاَ ضَرُورَةَ إِلَيْهِ أَوْ لاَ يَتَعَلَّقُ بِهِ تَكْلِيفٌ وَمَا لاَ يَقَعُ وَنَحْوِ ذَلِكَ:
37. باب: بے ضرورت مسئلے پوچھنا منع ہے۔
Chapter: Respecting Him And Not Asking Him Unnecessary Questions
حدیث نمبر: 6121
Save to word اعراب
وحدثني حرملة بن يحيي بن عبد الله بن حرملة بن عمران التجيبي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني انس بن مالك ، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج حين زاغت الشمس، فصلى لهم صلاة الظهر، فلما سلم، قام على المنبر، فذكر الساعة، وذكر ان قبلها امورا عظاما، ثم قال: من احب ان يسالني عن شيء، فليسالني عنه، فوالله لا تسالونني عن شيء إلا اخبرتكم به، ما دمت في مقامي هذا، قال انس بن مالك: فاكثر الناس البكاء حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم، واكثر رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان يقول: سلوني، فقام عبد الله بن حذافة، فقال: من ابي يا رسول الله، قال: ابوك حذافة، فلما اكثر رسول الله صلى الله عليه وسلم، من ان يقول: سلوني، برك عمر، فقال: رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد رسولا، قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قال عمر ذلك، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اولى والذي نفس محمد بيده، لقد عرضت علي الجنة والنار آنفا، في عرض هذا الحائط، فلم ار كاليوم في الخير والشر، قال ابن شهاب: اخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، قال: قالت ام عبد الله بن حذافة لعبد الله بن حذافة: ما سمعت بابن قط، اعق منك، اامنت ان تكون امك قد قارفت بعض ما تقارف نساء اهل الجاهلية، فتفضحها على اعين الناس؟ قال عبد الله بن حذافة: والله لو الحقني بعبد اسود، للحقته ".وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى لَهُمْ صَلَاةَ الظُّهْرِ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَذَكَرَ السَّاعَةَ، وَذَكَرَ أَنَّ قَبْلَهَا أُمُورًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَنِي عَنْ شَيْءٍ، فَلْيَسْأَلْنِي عَنْهُ، فَوَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونَنِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ بِهِ، مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَأَكْثَرَ النَّاسُ الْبُكَاءَ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَقُولَ: سَلُونِي، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، فَلَمَّا أَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ أَنْ يَقُولَ: سَلُونِي، بَرَكَ عُمَرُ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ عُمَرُ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْلَى وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا، فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ: مَا سَمِعْتُ بِابْنٍ قَطُّ، أَعَقَّ مِنْكَ، أَأَمِنْتَ أَنْ تَكُونَ أُمُّكَ قَدْ قَارَفَتْ بَعْضَ مَا تُقَارِفُ نِسَاءُ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَتَفْضَحَهَا عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ: وَاللَّهِ لَوْ أَلْحَقَنِي بِعَبْدٍ أَسْوَدَ، لَلَحِقْتُهُ ".
یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے کے بعد باہر تشریف لائے اور انھیں ظہر کی نماز پڑھائی، جب آ پ نے سلام پھیرا تو منبر پر کھڑے ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس سے پہلے بہت بڑے بڑے امور وقوع پزیر ہوں گے، پھر فرمایا: "جو شخص (ان میں سے) کسی چیز کے بارے میں سوال کرنا چاہے تو سوا ل کرلے۔اللہ کی قسم!میں جب تک اس جگہ کھڑا ہوں، تم مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی سوال کروگے میں تمھیں اس کے بارے میں بتاؤں گا۔" حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا اور آپ نے بار بار کہنا شروع کردیا: "مجھ سے پوچھو"تو لوگ بہت روئے، اتنے میں عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرا باپ کون تھا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھارا باپ حذافہ تھا۔"پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ بار"مجھ سے پوچھو"فرمانا شروع کیا (اور پتہ چل گیا کہ آپ غصے میں کہہ رہے ہیں) توحضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار فرمالیا۔کہا: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اچھا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے!ابھی ابھی اس دیوار کی چوڑائی کے اندرجنت اور دوزخ کو میرے سامنے پیش کیا گیا تو خیر اورشر کے بارے میں جو میں نے آج دیکھا، کبھی نہیں دیکھا۔" ابن شہاب نے کہا: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے مجھے بتایاکہ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ (کی یہ بات سن کر ان) کی والدہ نے عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے کبھی نہیں سنا کہ کوئی بیٹا تم سے زیادہ والدین کا حق پامال کرنے والا ہو۔کیا تم خود کو اس بات سے محفوظ سمجھتے تھے کہ ہوسکتا ہے تمہاری ماں سے بھی کوئی ایسا کام ہوگیا ہو کہ جو اہل جاہلیت کی عورتوں سے ہوجاتا تھا تو تم اس طرح (سوال کرکے) سب لوگوں کے سامنے اپنی ماں کو رسوا کردیتے؟عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم!اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا نسب کسی حبشی غلام سے بھی ملا دیتے تو میں اسی کی ولدیت اختیار کرلیتا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب سورج ڈھل گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہیں ظہر کی نماز پڑھائی، جب سلام پھیرا تو منبر پر کھڑے ہو گئے اور قیامت کا تذکرہ کیا اور بتایا، اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ظاہر ہوں گے، پھر فرمایا: جو مجھ سے کسی چیزکے بارے میں سوال کرنا چاہے، وہ مجھ سے ا س کے بارے میں پوچھے، سو اللہ کا قسم! تم مجھ سے جس کے بارےمیں بھی سوال کرو گے، جب تک میں یہاں اس جگہ ہوں، اس کے بارےمیں، میں تمہیں بتا دوں گا، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی تو بہت روئے اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت یہ فرمایا: مجھ سے پوچھ لو۔ تو حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہوئے اور پوچھا میرا باپ کون ہے؟ اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حذافہ توجب رسول اللہ نےبار بار یہ فرمایا: مجھ سے پوچھ لو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے، ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے ضابظۂ حیات ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ومطمئن ہیں تو جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ الفاظ کہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہلاکت قریب تھی، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، ابھی اس دیوار کی چوڑائی میں میرے سامنے جنت او ردوزخ پیش کی گئی، سو میں نے آج جیسا خیرو شر کا منظر نہیں دیکھا۔ ابن شہاب کہتے ہیں، مجھے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا، عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ نے عبداللہ بن حذافہ سے کہا، میں تجھ جیسا نافرمان بیٹا کبھی نہیں سنا، کیا تم اس بات سے بے خوف تھے کہ تیری ماں نے کسی ایسی حرکت کا ارتکاب کیا ہو جس کا ارتکاب جاہلیت میں عورتیں کرتی تھیں، اس طرح تم اسے لوگوں کے سامنے رسوا کر دیتے،حضرت عبداللہ بن حذافہ نے کہا، اللہ کی قسم! اگر مجھے حبشی کا بچہ قرار دیتے تو میں اس کے ساتھ منسوب ہو جاتا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2359

   صحيح البخاري6362أنس بن مالكلا تسألوني اليوم عن شيء إلا بينته لكم فجعلت أنظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف رأسه في ثوبه يبكي فإذا رجل كان إذا لاحى الرجال يدعى لغير أبيه فقال يا رسول الله من أبي قال حذافة ثم أنشأ عمر فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا و بمحمد رسولا
   صحيح البخاري7295أنس بن مالكأبوك فلان ونزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء
   صحيح البخاري7294أنس بن مالكمن أحب أن يسأل عن شيء فليسأل عنه فوالله لا تسألوني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا قال أنس فأكثر الناس البكاء وأكثر رسول الله أن يقول سلوني فقال أنس فقام إليه رجل فقال أين مدخلي يا رسول الله قال النار فقام عبد الله
   صحيح البخاري7089أنس بن مالكلا تسألوني عن شيء إلا بينت لكم فجعلت أنظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف رأسه في ثوبه يبكي فأنشأ رجل كان إذا لاحى يدعى إلى غير أبيه فقال يا نبي الله من أبي فقال أبوك حذافة ثم أنشأ عمر فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا نعوذ بالله من سوء الفتن
   صحيح البخاري93أنس بن مالكأبوك حذافة ثم أكثر أن يقول سلوني فبرك عمر على ركبتيه فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا فسكت
   صحيح مسلم6120أنس بن مالكأبوك فلان ونزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم
   صحيح مسلم6121أنس بن مالكخرج حين زاغت الشمس فصلى لهم صلاة الظهر ذكر الساعة وذكر أن قبلها أمورا عظاما من أحب أن يسألني عن شيء فليسألني عنه فوالله لا تسألونني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا قال أنس بن مالك فأكثر الناس البكاء حين سمعوا
   جامع الترمذي3056أنس بن مالكأبوك فلان فنزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6121 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6121  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ منافقوں نے دق کرنے کے لیے لا یعنی سوال کیے،
جن کا مقصد رسالت اور ہدایت و راہنمائی سے کوئی تعلق نہ تھا،
آپ اس پر ناراض ہوئے تو آپ کو وحی کے ذریعہ آگاہ کیا گیا کہ ان کو سوال کرنے دیں،
ہم آپ کو بتلائیں گے،
اس لیے آپ نے غصہ کے عالم میں بار بار یہ فرمایا،
میں جب تک یہاں کھڑا ہوں،
تم نے جو سوال کرنا ہے،
کر لو،
بعض پختہ کار مسلمان بھی بدفہمی کی بنا پر سوالوں میں شریک ہو گئے،
لیکن اکثر لوگ آپ کی ناراضی کی کیفیت دیکھ کر رونے لگے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ترجمانی میں مذکورہ الفاظ کہے،
جس سے آپ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا،
حضرت عبداللہ بن حذافہ کے نسب پر بعض لوگ طعن کرتے تھے،
انہوں نے آپ کی کیفیت کو نہ سمجھا،
اس لیے انہوں نے اپنے باپ کے بارے میں سوال کر لیا،
تاکہ معاملہ صاف ہو جائے،
جاہلیت کے دور میں عورتیں زنا کرتی تھیں اور بیٹا زانی کا ہی تصور ہوتا تھا،
اس لیے جب حضرت عبداللہ کی والدہ نے غصے کا اظہار کیا کہ تمہیں کیا معلوم،
اگر بالفرض میں نے دور جاہلیت میں زنا کا ارتکاب کیا ہوتا تو تمہارے سوال کے نتیجہ میں،
میں تمام لوگوں کے سامنے ذلیل ہو جاتی تو حضرت عبداللہ نے کہا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کی روشنی میں جو بھی فیصلہ فرماتے مجھے دل و جان سے قبول ہوتا،
حق کے سامنے سر جھکانے میں کوئی رسوائی آڑ نہ بنتی،
لیکن ظاہر ہے اسلام کے اصولوں کے مطابق شادی شدہ عورت سے زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا زانی کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا،
وہ اگر خاوند تسلیم نہ کرے تو اپنی ماں کی طرف منسوب ہوتا ہے،
وگرنہ الولد للفراش کے مطابق بیٹا اس کا ہو گا جس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6121   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 93  
´شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي؟ فَقَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا"، فَسَكَتَ . . .»
. . . (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حذافہ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں (اور یہ جملہ) تین مرتبہ (دہرایا) پھر (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 93]
تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عرض کرنے کی منشا یہ تھی کہ اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر اب ہمیں مزید کچھ سوالات پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ عبداللہ بن حذافہ کو کسی اور کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے آپ سے اپنی تشفی حاصل کر لی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دو زانو ہو کر بیٹھنے سے ترجمہ باب نکلا اور ثابت ہوا کہ شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ باادب بانصیب بے ادب بے نصیب، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤدبانہ بیان سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ جاتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 93   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7295  
7295. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے نبی! میرا باپ کون ہے؟ فرمایا: تیرا باپ فلاں ہے۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی: اے ایمان والو! ایسی اشیاء کے متعلق مت سوال کرو (اگر انہیں ظاہر کر دیا جائے تو تمہیں برا لگے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7295]
حدیث حاشیہ:
خدا نخواستہ کسی کا باپ صحیح نہ ہو اور آپ پوچھنے پر اس حقیقت کو ظاہر کر دیں تو پوچھنے والے کی کتنی رسوائی ہو سکتی ہے۔
اس لیے احتیاطاً بیجا سوال کرنے سے منع کیا گیا۔
آپ کو اللہ پاک وحی کے ذریعہ سے آگاہ کر دیتا تھا۔
یہ کوئی غیب دانی کی بات نہیں بلکہ محض اللہ کا عطیہ ہے جو وہ اپنے رسولوں نبیوں کو بخشتا ہے (قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّـٰهُ ۚ الخ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7295   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3056  
´سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: تمہارا باپ فلاں ہے، راوی کہتے ہیں: پھر یہ آیت نازل ہوئی: «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» اے ایمان والو! ایسی چیزیں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ بیان کر دی جائیں تو تم کو برا لگے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3056]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ عبداللہ بن حذافہ سہمی ہیں،
سوال اس لیے کرنا پڑا کہ لوگ انہیں غیر باپ کی طرف منسوب کر رہے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3056   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:93  
93. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ نے کھڑے ہو کر سوال کیا: میرے والد کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: تمہارے والد حذافہ ہیں۔ پھر آپ نے بار بار فرمایا: مجھ سے دریافت کرو۔ حضرت عمر ؓ دوزانو بیٹھ گئے اور کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمد ﷺ کے نبی ہونے پر خوش ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ خاموش ہو گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:93]
حدیث حاشیہ:

حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بعض لوگ کسی اور کا بیٹا کہا کرتے تھے، اس لیے انہوں نے تسلی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقت حال کی وضاحت فرمادی۔
اس طرح مجلس میں بہت سے بے تکے سوالات ہوئے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ بڑھنا شروع ہوگیا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے دو چیزیں اختیار کیں۔
ایک کا تعلق قول سے ہے اور دوسری کافعل سے:
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کی ربوبیت، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور اسلام کی حقانیت کا اقرار کیا اور عملاً یہ کیا کہ دوزانو بیٹھنے کی نشست اختیار فرمائی تاکہ اس عاجزانہ اورمؤدبانہ طریقے سے آپ کا غصہ فرو ہو۔
اس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔

دوزانو بیٹھنا تشہد بیٹھنے کی کیفیت ہے۔
شاید کوئی غیر نماز میں اس طرح بیٹھنے کو ناجائز کہہ دے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ اس طرح بیٹھنا نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ بھی ہے کیونکہ اس میں تواضع ہے، نیز اس طرح بیٹھنا استاد کی توجہات کو بھی کھینچتا ہے، اس لیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے یہی نشست موزوں اور مناسب ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شاگرد کو اپنے استاد کا احترام ہمہ وقت ملحوظ رکھنا چاہیے کیونکہ مشہور مقولہ ہے:
(با ادب بانصیب، بے ادب بے نصیب)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 93   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6362  
6362. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوالات کیے گئے۔ جب معاملہ مبالغے کی حد تک پہنچ گیا تو آپ غصے میں آگئے۔ پھر آپ منبر پر تشریف لائے فرمایا: آج تم مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے میں وضاحت سے بیان کروں گا۔ اس وقت میں نے دائیں بائیں دیکھا تو تمام صحابہ کرام اپنے سر کپڑوں میں لپیٹے ہوئے رو رہے تھے۔ اس دوران میں ایک آدمی کھڑا ہوا جس کا اگر کسی سے جھگڑا ہو جاتا تو وہ اسے غیر باپ کی طرف منسوب کر دیتا تھا۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تیرا باپ حذافہ ہے اس صورت حال کو دیکھ کر حضرت عمر ؓ اٹھے اور عرض کرنے لگے۔ ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں، اسلام کے دین ہونے پر خوش ہیں اور حضرت محمد ﷺ کے رسول ہونے پر شادماں ہیں، نیز فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے خیر وشر (کے معاملے) میں آج تک کے دن کی طرح کبھی (کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6362]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ صحیح فیصلہ کرنے میں حائل نہیں ہوتا تھا کیونکہ آپ کی زبان حق ترجمان سے ہر حال میں حق ہی ظاہر ہوتا تھا جبکہ دوسرے لوگ غصے کی حالت میں صحیح فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
(2)
اس حدیث سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بھی پتا چلتا ہے، انہیں عقل و بصیرت سے پتا چلا کہ کثرت سوال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچتی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6362   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7295  
7295. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے نبی! میرا باپ کون ہے؟ فرمایا: تیرا باپ فلاں ہے۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی: اے ایمان والو! ایسی اشیاء کے متعلق مت سوال کرو (اگر انہیں ظاہر کر دیا جائے تو تمہیں برا لگے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7295]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث ذکر کی ہیں، ان کے پیش نظر تین مقاصد ہیں:
۔
کثرت سوالات کی ممانعت بیان کرنا۔
۔
لا یعنی اور بے فائدہ تکلفات سے بچنا۔
۔
سورۃ المائدۃ کی آیت: 101 کا پس منظر بیان کرنا۔
ان دونوں احادیث میں آیت کریمہ کا پس منظر بیان کیا گیا ہے۔
جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ٹھکانے کے متعلق سوال کیا تھا وہ منافقین میں سے تھا۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے ہولناک واقعات کے رونما ہونے کا ذکر کیا تھا، اس لیے انصار پر خوف طاری ہوا اور وہ بہت روئے۔

حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کو بھی اچھا خیال نہیں کیا گیا کیونکہ خدانخواستہ اگر کسی کا باپ صحیح نہ ہو اور سوال کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حقیقت کو ظاہر کر دیں تو سوال کرنے والے کی کس قدر رسوائی ہوتی، اس لیے بے جا قسم کے سوالات پوچھنے سے منع کر دیا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان نہیں تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کےذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا جاتا تھا۔
دعوائے غیب دانی کی نفی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7295   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.