الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
لباس اور زینت کے احکام
The Book of Clothes and Adornment
3ق. باب تَحْرِيمِ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَغَيْرِ ذٰلَكَ لِلرِّجَالِ
3ق. باب: مردوں کے لیے ریشم وغیرہ پہننے کی حرمت کے بیان میں۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 5410
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبيد بن سعيد ، عن شعبة ، عن خليفة بن كعب ابي ذبيان ، قال: سمعت عبد الله بن الزبير يخطب، يقول: الا لا تلبسوا نساءكم الحرير، فإني سمعت عمر بن الخطاب ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تلبسوا الحرير، فإنه من لبسه في الدنيا لم يلبسه في الآخرة ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ كَعْبٍ أَبِي ذِبْيَانَ ، قال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ يَخْطُبُ، يقول: أَلَا لَا تُلْبِسُوا نِسَاءَكُمُ الْحَرِيرَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يقول: قال رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَلْبَسُوا الْحَرِيرَ، فَإِنَّهُ مَنْ لَبِسَهُ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ ".
شعبہ نے خلیفہ بن کعب ابی زبیان سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ خطبہ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے: سنو!اپنی عورتوں کو ریشم نہ پہناؤ کیونکہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کو (یہ حدیث بیا ن کرتے ہوئے) سنا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ر یشم نہ پہنو، کیونکہ جس نے دنیا میں اسے پہنا وہ آخرت میں اس کو نہیں پہنے گا۔"
ابو ذیبان خلیفہ بن کعب بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو خطبہ میں یہ کہتے ہوئے سنا: خبردار! اپنی عورتوں کو ریشمی لباس نہ پہناؤ، کیونکہ میں نے عمر بن خطاب کو یہ کہتے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریشم نہ پہنو، کیونکہ جس نے اسے پہنا، وہ اسے آخرت میں نہیں پہن سکے گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2069

   صحيح البخاري5833عبد الله بن الزبيرمن لبس الحرير في الدنيا لم يلبسه في الآخرة
   صحيح البخاري5834عبد الله بن الزبيرمن لبس الحرير في الدنيا لم يلبسه في الآخرة
   صحيح مسلم5410عبد الله بن الزبيرلا تلبسوا الحرير من لبسه في الدنيا لم يلبسه في الآخرة
   سنن النسائى الصغرى5308عبد الله بن الزبيرمن لبسه في الدنيا لم يلبسه في الآخرة
   سنن النسائى الصغرى5307عبد الله بن الزبيرمن لبس الحرير في الدنيا فلن يلبسه في الآخرة
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5410 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5410  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے عموم سے یہ سمجھتے تھے کہ ریشم مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے حرام ہے،
بعض صحابہ اور تابعین کا یہی موقف تھا،
لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزر چکا ہے کہ آپ نے حضرت علی اور اسامہ رضی اللہ عنہما کو فرمایا تھا کہ ریشمی جوڑے کے دو پٹے بنا کر عورتوں کو دے دیں اور سنن اور منصور احمد کی روایت ہے،
جسے ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے،
کہ آپ نے ریشم اور سونے کو مردوں کے لیے حرام قرار دیا اور عورتوں کے لیے حلال ٹھہرایا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5410   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5307  
´ریشم پہننے کی سخت ممانعت اور یہ بیان کہ اسے دنیا میں پہننے والا آخرت میں نہیں پہنے گا۔`
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ تم اپنی عورتوں کو ریشم نہ پہناؤ اس لیے کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دنیا میں ریشم پہنا، وہ اسے آخرت میں نہیں پہن سکے گا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5307]
اردو حاشہ:
اپنی عورتوں کو حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اس حکم کو عام سمجھتے تھے جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ ریشم کی حرمت کا حکم مردوں کے ساتھ خاص ہے۔ صحیح اور صریح احادیث اس تخصیص پر دلالت کرتی ہیں یہ صرف حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا موقف ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5307   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5308  
´ریشم پہننے کی سخت ممانعت اور یہ بیان کہ اسے دنیا میں پہننے والا آخرت میں نہیں پہنے گا۔`
عمران بن حطان سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ریشم پہننے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ لو، چنانچہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو وہ بولیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھ لو، میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے کہا: مجھ سے ابوحفص (عمر) رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5308]
اردو حاشہ:
(1) عمران بن حطان معتبر راوی ہیں۔ خارجی مذہب رکھتے تھے۔ بقول بعض بعد میں تائب ہو گئے۔ بالفرض تائب نہ بھی ہوئے ہوں تو بھی سچے آدمی کی بات معتبر ہونی ہے چاہے کسی عقیدے پر ہو بشرطیکہ اپنے مخصوص عقیدے کی حمایت میں بیان نہ کرے۔
(2) صحابہ کا سائل کو ایک دوسرے کے پاس بھیجنا اس حسن ظن کی بنا پر ہے کہ دوسرا صحابی مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے اور یہ حسن ظن علم کی دلیل ہے ورنہ علم پندار (غرور) بسا اوقات عالم کولے ڈوبتا ہے۔ أعاذنا اللہ منه.
(3) ابو حفص یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے جو ان کی بڑی بیٹی حضرت حفصہ ؓ ام المومنین کی نسبت سے مشہور ہوئی۔ عرب میں کنیت سے ذکرکرنا احترام کی علامت ہوتا تھا۔
(4) کوئی حصہ نہیں یہ الفاظ بطور زجر و توبیح اور ڈانٹ کےہیں۔ ظاہر الفاظ مقصود نہیں ہوتے۔ دیگر احادیث اس تاویل کی تائید کرتی ہیں۔ کسی ایک حدیث کو باقی احادیث سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مسئلے کے بارے میں آنے والی تمام روایات کوملا کر نتیجہ نکالاجاتا ہے۔ (مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیے، احادیث:5297، 5306)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5308   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.