حدثنا خلف بن هشام ، حدثنا حماد بن زيد ، عن يحيي بن سعيد ، عن محمد بن يحيي بن حبان ، عن انس بن مالك ، عن ام حرام وهي خالة انس، قالت: اتانا النبي صلى الله عليه وسلم يوما، فقال: عندنا فاستيقظ وهو يضحك، فقلت: ما يضحكك يا رسول الله بابي انت وامي؟، قال: " اريت قوما من امتي يركبون ظهر البحر كالملوك على الاسرة "، فقلت: ادع الله ان يجعلني منهم، قال: " فإنك منهم "، قالت: ثم نام فاستيقظ ايضا وهو يضحك فسالته، فقال: مثل مقالته، فقلت: ادع الله ان يجعلني منهم، قال: " انت من الاولين "، قال: فتزوجها عبادة بن الصامت بعد فغزا في البحر، فحملها معه، فلما ان جاءت قربت لها بغلة، فركبتها فصرعتها فاندقت عنقها.حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَي بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أُمِّ حَرَامٍ وَهِيَ خَالَةُ أَنَسٍ، قَالَتْ: أَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ: عِنْدَنَا فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟، قَالَ: " أُرِيتُ قَوْمًا مِنْ أُمَّتِي يَرْكَبُونَ ظَهْرَ الْبَحْرِ كَالْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ "، فَقُلْتُ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: " فَإِنَّكِ مِنْهُمْ "، قَالَتْ: ثُمَّ نَامَ فَاسْتَيْقَظَ أَيْضًا وَهُوَ يَضْحَكُ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: مِثْلَ مَقَالَتِهِ، فَقُلْتُ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: " أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ "، قَالَ: فَتَزَوَّجَهَا عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ بَعْدُ فَغَزَا فِي الْبَحْرِ، فَحَمَلَهَا مَعَهُ، فَلَمَّا أَنْ جَاءَتْ قُرِّبَتْ لَهَا بَغْلَةٌ، فَرَكِبَتْهَا فَصَرَعَتْهَا فَانْدَقَّتْ عُنُقُهَا.
لیث نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے ابن حبان سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے اپنی خالہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے قریب ہی سو گئے، پھر آپ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "مجھے میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو اس بحر اخضر پر سوار ہو کر جا رہے ہیں۔" پھر حماد بن زید کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ اپنی خالہ ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کرتے ہیں اس نے بتایا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہمارے ہاں قیلولہ کیا اور ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، تو میں نے پوچھا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ میرے ماں باپ آپ پر نثار، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے ہیں، جو سمندر کی پشت پر اس طرح (اطمینان و سکون سے) سوار ہوں گے، جس طرح بادشاہ (ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ) تخت پر بیٹھتے ہیں“ میں نے عرض کیا، اللہ سے دعا فرمائیں، وہ مجھے بھی ان میں سے کر دے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ططتو انہیں میں سے ہے“ پھر آپ سو گئے اور ہنستے ہوئے بیدار ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا، آپ نے پہلے کی طرح فرمایا، تو میں نے عرض کی، اللہ سے دعا فرمائیں، وہ مجھے ان میں سے کر دے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پہلے لوگوں میں سے ہے۔“ بعد کے دور میں ان سے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ نے شادی کر لی اور بحری غزوہ کے لیے نکلے تو ساتھ ان کو سوار کر لیا، جب واپس آنے لگے تو ان کے لیے خچر پیش کی گئی، وہ اس پر سوار ہو گئیں، اس نے انہیں گرا دیا، جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی۔