سلیمان بن بلال نے مجھے ربیعہ بن ابی عبدالرحمان سے حدیث بیان کی، انہوں نے منبعث کے مولیٰ یزید سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔۔ اس کے بعد اسماعیل بن جعفر کی حدیث کی طرح بیان کیا، مگر انہوں نے کہا: "تو آپ کا چہرہ اور پیشانی سرخ ہو گئے اور آپ غصہ ہوئے۔" اور انہوں نے اس قول"پھر ایک سال اس کی تشہیر کرو۔" کے بعد۔۔ یہ اضافہ کیا: "اگر اس کا مالک نہ آیا تو وہ تمہارے پاس امانت ہو گی
امام صاحب اپنے ایک اور استاد کی سند سے حدیث نمبر 4499 کی طرح بیان کرتے ہیں، مگر اس میں یہ ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اور پیشانی سرخ ہو گئی اور ناراض ہو گئے اور اس قول کے بعد کہ پھر ایک سال تک تشہیر کر، یہ اضافہ ہے، ”اگر اس کا مالک نہ آئے تو وہ تیرے پاس امانت ہو گی۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4501
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے اگر اٹھانے والا اس کو استعمال نہیں کرتا تو وہ اس کے پاس امانت کے طور پر ہو گی، اگر اس کی کوتاہی اور غفلت کے بغیر ضائع ہو گئی تو وہ ذمہ دار نہیں ہو گا، اگر کوتاہی کی تو ضامن ہو گا، یعنی تاوان پڑے گا یا یہ معنی ہو گا تو اس کو امانت سمجھ کہ میں نے اسے ادا کرنا ہے، خرچ کر دے گا تو ادائیگی نیت سے کرو گے۔