الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
عطیہ کی گئی چیزوں کا بیان
The Book of Gifts
1. باب كَرَاهَةِ شِرَاءِ الإِنْسَانِ مَا تَصَدَّقَ بِهِ مِمَّنْ تَصَدَّقَ عَلَيْهِ:
1. باب: جس کو جو چیز صدقہ دے پھر اس سے وہی چیز خریدنا مکروہ ہے۔
Chapter: It Is Disliked For A Man To Buy What He Gave In Charity From The One To Whom He Gave It
حدیث نمبر: 4163
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا مالك بن انس ، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، ان عمر بن الخطاب قال: " حملت على فرس عتيق في سبيل الله، فاضاعه صاحبه، فظننت انه بائعه برخص، فسالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: لا تبتعه ولا تعد في صدقتك، فإن العائد في صدقته كالكلب يعود في قيئه "،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: " حَمَلْتُ عَلَى فَرَسٍ عَتِيقٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَضَاعَهُ صَاحِبُهُ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ بَائِعُهُ بِرُخْصٍ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: لَا تَبْتَعْهُ وَلَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ، فَإِنَّ الْعَائِدَ فِي صَدَقَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ "،
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب نے ہمیں حدیث بیان کی: ہمیں مالک بن انس نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لیے کسی کو) ایک عمدہ گھوڑے پر سوار کیا (اسے دے دیا) تو اس کے (نئے) مالک نے اسے ضائع کر دیا (اس کی ٹھیک طرح سے خبر گیری نہ کی)، میں نے خیال کیا کہ وہ اسے کم قیمت پر فروخت کر دے گا، چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: اسے مت خریدو اور نہ اپنا (دیا ہوا) صدقہ واپس لو کیونکہ صدقہ واپس لینے والا ایسے کتے کی طرح ہے جو قے (چاٹنے کے لیے) اس کی طرف لوٹتا ہے
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک عمدہ گھوڑا اللہ کی راہ میں یعنی بطور صدقہ دیا، تو اس کے مالک نے اسے ضائع کر دیا، تو میں نے خیال کیا، وہ اس کو سستا بیچ دے گا، میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے مت خریدو، اور اپنا صدقہ واپس نہ لو، کیونکہ اپنا صدقہ واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1620

   صحيح البخاري2623عمر بن الخطابلا تشتره وإن أعطاكه بدرهم واحد العائد في صدقته كالكلب يعود في قيئه
   صحيح البخاري2636عمر بن الخطابلا تشتره ولا تعد في صدقتك
   صحيح البخاري2970عمر بن الخطابلا تشتره ولا تعد في صدقتك
   صحيح البخاري3003عمر بن الخطابالعائد في هبته كالكلب يعود في قيئه
   صحيح البخاري1490عمر بن الخطابالعائد في صدقته كالعائد في قيئه
   صحيح مسلم4165عمر بن الخطابلا تشتره وإن أعطيته بدرهم مثل العائد في صدقته كمثل الكلب يعود في قيئه
   صحيح مسلم4163عمر بن الخطابلا تبتعه ولا تعد في صدقتك العائد في صدقته كالكلب يعود في قيئه
   سنن النسائى الصغرى2616عمر بن الخطابلا تشتره وإن أعطاكه بدرهم العائد في صدقته كالكلب يعود في قيئه
   سنن ابن ماجه2390عمر بن الخطابلا تعد في صدقتك
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم285عمر بن الخطابلا تشتره وإن اعطاكه بدرهم، فإن العائد فى صدقته كالكلب يعود فى قيئه
   بلوغ المرام794عمر بن الخطاب لا تبتعه وإن أعطاكه بدرهم
   مسندالحميدي15عمر بن الخطابلا تشتره، ولا تعد في صدقتك
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4163 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4163  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
حَمَلْتُ عَليٰ فَرسِ:
میں نے گھوڑے پر سوار کیا،
یعنی گھوڑا صدقہ کیا۔
(2)
عَتِيق:
نفیس اور عمدہ۔
(3)
اضاعه صاحبه:
جس کو صدقہ میں دیا تھا،
اس نے اس کی دیکھ بھال اور فروخت میں کوتاہی کی اور ضائع کر ڈالا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جو چیز صدقہ میں دے دی جائے،
اس کو خریدنا جائز نہیں ہے،
اور چونکہ جس کو صدقہ دیا ہے،
جب اس سے خرید لیں گے،
تو وہ سستے داموں آپ کو واپس کرے گا،
اس لیے آپ نے اس کو صدقہ کی واپسی سے تعبیر فرمایا ہے،
ائمہ کے نزدیک سستا خریدنا تو ناجائز ہے،
اور صحیح قیمت پر خریدنا،
ناپسندیدہ ہے،
لیکن ہر دو صورت میں بیع ہو جائے گی،
جبکہ اہل ظاہر کے نزدیک یہ بیع ہی درست نہیں ہے،
جیسا کہ حدیث کا تقاضا ہے،
لیکن اگر صدقہ کردہ چیز وراثت میں واپس آ جائے،
تو ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے،
اگرچہ بعض اہل علم اس کو بھی درست نہیں سمجھتے،
لیکن یہ موقف درست نہیں ہے،
کیونکہ اس کا جواز حدیث سے ثابت ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4163   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 285  
´صدقہ واپس لینا جائز نہیں ہے`
«. . . لا تشتره وإن اعطاكه بدرهم، فإن العائد فى صدقته كالكلب يعود فى قيئه . . .»
. . . اپنا صدقہ واپس لینے والا کتے کی مانند ہے جو اپنی قے (الٹی) کو چاٹ لیتا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 285]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1490، ومسلم 1620، من حديث مالك به]
تفقه:
① نیز دیکھئے: حدیث: 214
② جو شخص کسی کو صدقہ دے تو اسے واپس (یعنی دوبارہ) خرید نہیں سکتا۔
③ جسے صدقہ دیا جائے وہ ضرورت کے وقت اسے بیچ سکتا ہے۔
④ صدقہ واپس لینا جائز نہیں ہے۔
⑤ شریعت نے حیل (حیلہ بازی) کا سدباب کیا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 168   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 794  
´ھبہ عمری اور رقبی کا بیان`
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک گھوڑا اللہ کے راستہ میں ایک آدمی کو سواری کے لئے دیا۔ اس نے اسے ناکارہ کر دیا۔ میں نے خیال کیا کہ وہ اسے سستے داموں بیچنے والا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا میں اسے خرید سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں اگر یہ گھوڑا ایک درہم کے عوض بھی دے تب بھی نہ خریدو۔ (الحدیث) (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 794»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب لا يحل لأحد أن يرجع في هبته وصدقته، حديث:2623.»
تشریح:
1. صدقہ و خیرات میں دی ہوئی چیز قیمتاً بھی واپس نہیں لینی چاہیے۔
بعض علماء نے اسے خریدنا حرام ٹھہرایا ہے۔
لیکن جمہور علماء کہتے ہیں کہ یہ نہی تنزیہی ہے۔
2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کا خیرات کردہ گھوڑا خریدنے سے منع فرمایا کہ ایسی خاص صورتوں میں فروخت کرنے والا خریدار سے تسامح اور چشم پوشی کر جاتا ہے جس سے فروخت کنندہ کو نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔
اس طرح اس چیز کی قیمت میں کمی کا واقع ہونا گویا اپنی خیرات کو واپس لینے کے مترادف ہے جو کہ جائز نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 794   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2616  
´صدقہ خریدنے کا بیان۔`
اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے (ایک آدمی کو) ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دیا تو اسے اس شخص نے برباد کر دیا، تو میں نے سوچا کہ میں اسے خرید لوں، خیال تھا کہ وہ اسے سستا ہی بیچ دے گا، میں نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: تم اسے مت خریدو گرچہ وہ تمہیں ایک ہی درہم میں دیدے، کیونکہ صدقہ کر کے پھر اسے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے اسے چاٹتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2616]
اردو حاشہ:
صدقہ کرنے والے کو اپنا صدقہ قیمتاً بھی لینا منع ہے۔ ممکن ہے وہ شخص اس کا لحاظ کرتے ہوئے اسے قیمت میں رعایت کرے، البتہ کوئی دوسرا شخص کسی دوسرے کا صدقہ خرید سکتا ہے کیونکہ اس کے لیے یہ صدقہ نہیں بلکہ خریدی ہوئی چیز ہے۔ گویا چیز کی حیثیت بدل جانے سے اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے، جیسے پچھلی حدیث میں ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2616   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:15  
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی ہے، میں نے اپنا ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں (جہاد میں حصہ لینے کے لیے) دیا، پھر بعد میں، میں نے اس گھوڑے کو فروخت ہوتے ہوئے دیکھا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا میں اسے خرید لوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم اسے نہ خریدو اور تم اپنی صدقہ کی ہوئی چیز کو واپس نہ لو۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:15]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ کی ہوئی چیز اگر بازار میں فروخت ہو رہی ہو تو صدقہ کرنے والا اس کو نہیں خرید سکتا، حالانکہ خریدنا اور چیز ہے اور صدقہ کو واپس لینا اور ہے، چونکہ ظاہری اور عمومی طور پر اس (صدقہ کی ہوئی چیز) کو خرید نا بھی واپس لینے میں شامل ہے، اس لیے اس سے منع کیا گیا ہے، تا کہ یہ صدقہ واپس لینے کا حیلہ نہ بن جائے۔
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کسی کو اپنے گھوڑے پر سوار کرنا گویا اس کو مالک بنانا ہے، جس طرح سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، جب سوار اس کو قبضے میں لے لے تو اس میں رجوع جائز نہیں ہے۔ ([فتح الباري: 492/6]
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث پر یوں باب باندھا ہے: «بـاب إذا حـمـل رجلا عـلى فرس فهو گالـعـمرى والصدقة» جب کوئی آدمی کسی کو گھوڑا سواری کے لیے ہدیہ کر دے تو وہ عمریٰ اور صدقے کی طرح ہوتا ہے (یعنی اسے واپس نہیں لیا جا سکتا)۔ [صحيح البخاري، قبل حديث: 2636]
سید نا عمر رضی اللہ عنہ کس قدر سخی انسان تھے کہ گھوڑ ابھی صدقہ کر دیا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 15   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2623  
2623. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے فی سبیل اللہ ایک شخص کو سواری کے لیے گھوڑا دیا تو جس کے پاس وہ گھوڑا تھا اس نے (اس کی حفاظت نہ کی بلکہ) اسے خراب کر ڈالا۔ میں نے ارادہ کیا کہ اس سے وہ گھوڑا خرید لوں اور گمان یہ تھا کہ وہ مجھے سستے داموں فروخت کردے گا۔ میں نے نبی ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اسے مت خریدو، اگرچہ وہ تمھیں ایک درہم کے عوض دے کیونکہ صدقے کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے اس کو چاٹ جاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2623]
حدیث حاشیہ:
اس گھوڑے کا نام ورد تھا۔
یہ تمیم داری نے آنحضرت ﷺ کو تحفہ گزرانا تھا اور آنحضرت ﷺ نے اسے حضرت عمر ؓ کو بخش دیا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2623   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1490  
1490. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے ایک دفعہ اللہ کی راہ میں سواری کا گھوڑادیا۔ جس شخص کے پاس وہ گھوڑا گیا اس نے اسے بالکل خراب اور بے کار کردیا، میں نے ارادہ کیا کہ اسے خرید لوں، میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ وہ اس گھوڑے کو سستا بیچ دے گا، میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:اسے مت خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو، اگرچہ وہ ایک درہم میں تجھے دے ڈالے کیونکہ خیرات دے کر واپس لینے والا قے کرکے چاٹنے والے کی طرح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1490]
حدیث حاشیہ:
باب کی حدیثوں سے بظاہر یہ نکلتا ہے کہ اپنا دیا ہوا صدقہ تو خریدنا حرام ہے، لیکن دوسرے کا دیا ہوا صدقہ فقیر سے فراغت کے ساتھ خرید سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1490   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2636  
2636. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے کسی کو اللہ کی راہ میں گھوڑا دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ فروخت ہو رہا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اسے مت خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2636]
حدیث حاشیہ:
وہ جس کو دیا اس کی ملک ہوچکا اب اس میں رجوع جائز نہیں۔
باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2636   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2970  
2970. حضرت عمر بن خطاب ؓسے روایت ہے، انھوں نےکہا: میں نے اللہ کی راہ میں کسی کو سواری کے لیے گھوڑا دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ فروخت ہو رہا ہے۔ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: میں اسے خرید لوں؟ آپ نے فرمایا: اسے مت خرید اور اپنے صدقے کو واپس نہ لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2970]
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب میں وہ اجرت مراد ہے جو جہاد میں شرکت نہ کرنے والا کوئی شخص اپنی طرف سے کسی آدمی کو اجرت دے کر جہاد پر بھیجتا ہے۔
جہاں تک جہاد پر اجرت کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ اجرت لینی جائز ہے۔
یوں تو جہاد کا حکم سب کے لئے برابر ہے۔
اس لئے کسی معقول عذر کے بغیر اس میں شرکت سے پہلو تہی کرنا مناسب نہیں۔
البتہ یہ صورت اس سے الگ ہے کہ کسی پر جہاد فرض یا واجب نہ ہو اور وہ جہاد میں جانے والے کی مدد کرکے ثواب میں شریک ہو جائے۔
جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کیا تھا۔
ہاں جہاد میں شرکت سے بچنے کے لئے اگر ایسا کرتا ہے تو بہتر نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2970   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1490  
1490. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے ایک دفعہ اللہ کی راہ میں سواری کا گھوڑادیا۔ جس شخص کے پاس وہ گھوڑا گیا اس نے اسے بالکل خراب اور بے کار کردیا، میں نے ارادہ کیا کہ اسے خرید لوں، میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ وہ اس گھوڑے کو سستا بیچ دے گا، میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:اسے مت خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو، اگرچہ وہ ایک درہم میں تجھے دے ڈالے کیونکہ خیرات دے کر واپس لینے والا قے کرکے چاٹنے والے کی طرح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1490]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں اپنا دیا ہوا صدقہ خریدنے کی حرمت ہے۔
حدیث کے ظاہر سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
لیکن جمہور علماء نے اسے کراہت اور نہی تنزیہ پر محمول کیا ہے۔
کفارے اور نذر میں دیے ہوئے مال کا بھی یہی حکم ہے۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت عمرؓ نے جو گھوڑا اللہ کی راہ میں کسی غازی کو دیا تھا اس کا نام "ورد" تھا اور وہ تمیم داری ؓ کی ملک تھا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ہدیہ دیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے وہ گھوڑا حضرت عمر ؓ کو عطا فرمایا اور انہوں نے فی سبیل اللہ کسی مجاہد کو دے دیا۔
(فتح الباري: 445/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1490   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2623  
2623. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے فی سبیل اللہ ایک شخص کو سواری کے لیے گھوڑا دیا تو جس کے پاس وہ گھوڑا تھا اس نے (اس کی حفاظت نہ کی بلکہ) اسے خراب کر ڈالا۔ میں نے ارادہ کیا کہ اس سے وہ گھوڑا خرید لوں اور گمان یہ تھا کہ وہ مجھے سستے داموں فروخت کردے گا۔ میں نے نبی ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اسے مت خریدو، اگرچہ وہ تمھیں ایک درہم کے عوض دے کیونکہ صدقے کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے اس کو چاٹ جاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2623]
حدیث حاشیہ:
(1)
قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑا فروخت کرنے والے کی طرف سے کچھ نہ کچھ سہولت کی امید ضرور تھی، چنانچہ بیچنے والے کی طرف سے تھوڑی سی سہولت فروخت کردہ چیز کے بعض اجزاء میں رجوع کرنے کے مترادف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اقدام کو عود في الصدقة کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔
(2)
اگر صدقہ کیا ہوا مال بطور وراثت حصے میں آ جائے تو اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ وہ لینا جائز ہے۔
(3)
واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ نے وہ گھوڑا جہاد کے لیے وقف نہیں کیا تھا کیونکہ وقف کی ہوئی چیز کی خریدوفروخت ممنوع ہوتی ہے بلکہ اس کی ملکیت میں دے دیا تھا۔
حدیث کے الفاظ سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ وقف نہیں بلکہ ہبہ کیا تھا۔
(فتح الباري: 291/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2623   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2636  
2636. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے کسی کو اللہ کی راہ میں گھوڑا دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ فروخت ہو رہا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اسے مت خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2636]
حدیث حاشیہ:
(1)
شارح بخاری ابن بطال ؒفرماتے ہیں:
فی سبیل اللہ گھوڑے پر سواری کرنا اگر تملیک کے لیے ہے تو وہ صدقے کی طرح ہے، اگر اس نے قبضہ کر لیا ہے تو اس میں رجوع کرنا جائز نہیں۔
اور اگر جہاد کے لیے وقف کیا ہے تو بھی رجوع جائز نہیں۔
جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔
(2)
قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اسے مالک بنا دیا تھا۔
گھوڑے کو فی سبیل اللہ وقف نہیں کیا تھا۔
اگر وقف ہوتا تو اس کے فروخت کرنے اور حضرت عمر ؓ کے خریدنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دراصل امام بخاری ؒ ایک موقف کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ ہبہ میں رجوع جائز ہے اگرچہ وہ اجنبی کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔
یہ موقف صحیح نہیں۔
ہبہ میں رجوع جائز نہیں جس کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔
(فتح الباري: 303/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2636   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3003  
3003. حضرت عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے اللہ کی راہ میں کسی کو گھوڑا دیا۔ پھر، جس کے پاس گھوڑا تھا، اس نے اسے فروخت کرنا چاہا یا اسے بالکل کمزور کردیا۔ اس بنا پر میں نے اسے خرید لینے کا ارادہ کیا۔ مجھے یہ بھی خیال تھا کہ وہ شخص اسے سستے داموں فروخت کردےگا، میں نے اس کے متعلق نبی ﷺ سےدریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اسے مت خریدو اگرچہ وہ تمھیں ایک درہم ہی میں دے کیونکہ اپنے صدقے کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے خود ہی چاٹتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3003]
حدیث حاشیہ:
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓنے وہ گھوڑا وقف نہیں کیا تھا بلکہ بطور ہبہ کسی کو دیا تھا کیونکہ وقف شدہ چیز کی خرید و فروخت منع ہے جبکہ ہبہ کی ہوئی چیز بیچی جا سکتی ہے نیز جو چیز کسی کو فی سبیل اللہ دے دی جائے اسے خرید کر واپس لینا جائز نہیں ہاں اگر وراثت میں اپنا دیا ہوا صدقہ حصے میں آئے تو اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔
وہ لینا جائز اور حلال ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3003   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.