وحدثني ابو الطاهر ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني اسامة بن زيد الليثي ، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، قال: لما افتتحت خيبر، سالت يهود رسول الله صلى الله عليه وسلم: ان يقرهم فيها على ان يعملوا على نصف ما خرج منها من الثمر، والزرع، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اقركم فيها على ذلك ما شئنا "، ثم ساق الحديث بنحو حديث ابن نمير، وابن مسهر، عن عبيد الله، وزاد فيه: وكان الثمر يقسم على السهمان من نصف خيبر، فياخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم الخمس.وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: لَمَّا افْتُتِحَتْ خَيْبَرُ، سَأَلَتْ يَهُودُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ يُقِرَّهُمْ فِيهَا عَلَى أَنْ يَعْمَلُوا عَلَى نِصْفِ مَا خَرَجَ مِنْهَا مِنَ الثَّمَرِ، وَالزَّرْعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُقِرُّكُمْ فِيهَا عَلَى ذَلِكَ مَا شِئْنَا "، ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ، وَابْنِ مُسْهِرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَزَادَ فِيهِ: وَكَانَ الثَّمَرُ يُقْسَمُ عَلَى السُّهْمَانِ مِنْ نِصْفِ خَيْبَرَ، فَيَأْخُذُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخُمْسَ.
یحییٰ قطان نے ہمیں عبیداللہ سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے اس کی پیداوار کے نصف پر معاملہ کیا جو وہاں سے پھلوں اور کھیتی کی صورت میں حاصل ہو گی
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب خیبر فتح کر لیا گیا تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ انہیں وہیں رہنے دیں، اور وہ اس شرط پر زمین پر کام کاج کریں گے، جو اس سے پھل اور غلہ حاصل ہو گا، آدھا ان کا ہو گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم اس شرط پر جب تک چاہیں گے تمہیں یہاں رہنے دیں گے۔“ آگے مذکورہ بالا روایت بیان کی، اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ خیبر کے نصف حصہ کو مسلمانوں میں ان کے حصہ کے مطابق تقسیم کر لیا جاتا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے پانچواں حصہ رکھ لیتے تھے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3965
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خیبر کی زمین مسلمانوں کی ملکیت میں آ گئی تھی، لیکن چونکہ یہودی وہاں کے باشندے تھے، اس لیے وہ اس کو بہتر طور پر کاشت کر سکتے تھے، اس لیے زمین نصف پیداوار یا آمدنی پر ان کے پاس رہنے دی گئی، اور آپﷺ نے فرمایا، جب تک ہماری منشاء ہوگی یا تمہارے ساتھ الجھاؤ پیدا نہیں ہوگا، یہ زمین تمہارے پاس رہنے دیں گے، جب ہم کوئی خرابی محسوس کریں گے، تو زمین تم سے واپس لے لیں گے، جس سے معلوم ہوتا ہے، مزارعت یا مساقات کے لیے مدت معین کرنا ضروری نہیں، حالات کی سازگاری کے مطابق یہ معاملہ چلتا رہے گا جب کسی فریق کو کوئی دقت یا پریشانی ہو گی، تو اس معاملہ کو ختم کر دیا جائے گا، اس لیے جمہور نے اس حدیث کی جو تاویلیں کی ہیں، وہ درست نہیں ہیں۔