وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن ايوب السختياني ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح على ناقة لاسامة بن زيد حتى اناخ بفناء الكعبة، ثم دعا عثمان بن طلحة، فقال: " ائتني بالمفتاح "، فذهب إلى امه، فابت ان تعطيه، فقال: والله لتعطينه او ليخرجن هذا السيف من صلبي، قال: فاعطته إياه، فجاء به إلى النبي صلى الله عليه وسلم فدفعه إليه، ففتح الباب، ثم ذكر بمثل حديث حماد بن زيد.وحدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ عَلَى نَاقَةٍ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ حَتَّى أَنَاخَ بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ، ثُمَّ دَعَا عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ، فقَالَ: " ائْتِنِي بِالْمِفْتَاحِ "، فَذَهَبَ إِلَى أُمِّهِ، فَأَبَتْ أَنْ تُعْطِيَهُ، فقَالَ: وَاللَّهِ لَتُعْطِينِهِ أَوْ لَيَخْرُجَنَّ هَذَا السَّيْفُ مِنْ صُلْبِي، قَالَ: فَأَعْطَتْهُ إِيَّاهُ، فَجَاءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَهُ إِلَيْهِ، فَفَتَحَ الْبَابَ، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ.
سفیان نے ہمیں ایوب سختیانی سے حدیث بیان کی انھون نے نافع سے اور انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی اونٹنی پر (سوار ہو کر) تشر یف لا ئے یہاں تک کہ آپ نے اسے کعبہ کے صحن میں لا بٹھا یا پھر عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور کہا: مجھے (بیت اللہ کی) چابی دو وہ اپنی والدہ کے پاس گئے تو اس نے انھیں چا بی دینے سے انکا ر کر دیا انھوں نے کہا یا تو تم یہ چا بی مجھے دوگی یا پھر یہ تلوار میری پیٹھ سے پار نکل جا ئے گی، کہا تو اس نے وہ چابی انھیں دے دی وہ اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چا بی انھی کو دے دی تو انھوں (ہی) نے دروازہ کھو لا پھر حماد بن زید کی حدیث کے مانند بیان کی۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اونٹنی پر سوار ہو کر تشریف لائے، اور اسے کعبہ کے صحن میں لا بٹھایا، پھر عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوا کر فرمایا: ”میرے پاس چابی لاؤ۔“ وہ اپنی ماں کے پاس گیا، اس نے اسے کنجی دینے سے انکار کر دیا، عثمان نے کہا، اللہ کی قسم! کنجی مجھے دے دو، وگرنہ یہ تلوار میری پشت سے پار ہو جائے گی، (میں خودکشی کر لوں گا، یا وہ مجھے مار ڈالیں گے) تو اس نے اسے کنجی دے دی، اس نے لا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دی، پھر اس نے دروازہ کھولا، آ گے مذکورہ بالا روایت ہے۔