عمرہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: لو گ کا م کا ج والے تھے ان کے نوکر چاکر نہ ہو تے تھے وہ ایسے تھے کہ ان سے بو آتی تھی تو ان سے کہا گیا: کیا ہی اچھا ہو کہ تم جمعے کے دن نہا لیا کرو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں،لوگ کام کاج کرتے تھے، ان کے نوکرچاکر نہیں تھے، ان سے بدبو اٹھتی تھی تو ان سے کہا گیا، ”اے کاش! تم جمعہ کے دن نہا لیا کرو۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1959
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) يَنَتَابُونَ الجُمُعَة: وہ یکے بعد دیگرے جمعہ کے لیے آتے تھے، اس لیے باری باری آنے کا یہ معنی نہیں ہے کہ کبھی کچھ آتے اور کبھی دوسرے آتے، کیونکہ نسائی شریف کی روایت میں يَحضُرُونً کا لفظ ہے اور مِن مَنَازِلِهِم، اپنے گھروں سے آتے تھے، بھی اس کا قرینہ ہے۔ (2) عوالي: مدینہ کے ان مضافات کو کہتے ہیں، جو بلند تھے، اور تین، چار سے سات، آٹھ میل تک واقع تھے۔ (3) العباء: عبائة کی جمع ہے اونی چادر کو کہتے ہیں، اس وقت لوگ اونٹ کے بالوں سے بناتے تھے۔ (4) كفاة: كاف کی جمع ہے، نوکر چاکر جو انسان کو کام کاج کے لیے کفایت کرتے ہیں۔ (5) تفل: بدبو، کام کاج کے کپڑے، جب پسینہ آتا ہے تو ان سے بدبو محسوس ہوتی ہے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث میں جمعہ کے لیے غسل کرنے کا پس منظر اور سبب بتایا گیا ہے، اس لیے جمہور علماء اس پس منظر کی بناء پر غسل کو ضرورت پر محمول کرتے ہیں اس کو جمعہ کے لیے ہر ایک کے لیے لازم قرارنہیں دیتے۔ لیکن جس طرح حج میں رمل مشرکین کے سامنے قوت کے اظہار کے لیے کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد اس کو باقی رکھا گیا۔ اسی طرح شروع میں تو سبب یہی تھا لیکن بعد میں آپﷺ نے حکم عام دے دیا۔ جیسا کہ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے۔