وحدثنا وحدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا عبد الوارث ، عن عبد العزيز وهو ابن صهيب ، عن انس بن مالك ، قال: " كنا بالمدينة، فإذا اذن المؤذن لصلاة المغرب ابتدروا السواري، فيركعون ركعتين ركعتين، حتى إن الرجل الغريب ليدخل المسجد، فيحسب ان الصلاة قد صليت من كثرة من يصليهما ".وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " كُنَّا بِالْمَدِينَةِ، فَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ ابْتَدَرُوا السَّوَارِيَ، فَيَرْكَعُونَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ الْغَرِيبَ لَيَدْخُلُ الْمَسْجِدَ، فَيَحْسِبُ أَنَّ الصَّلَاةَ قَدْ صُلِّيَتْ مِنْ كَثْرَةِ مَنْ يُصَلِّيهِمَا ".
عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم مدینے میں ہوتے تھے، جب موذن مغرب کی اذان دیتا و لوگ ستونوں کی طرح لپکتے تھے اور وہ دو رکعتیں پڑھتے تھے حتیٰ کہ ایک مسافر مسجد میں آتا تو ان رکعتوں کو پڑھنے والوں کی کثرت دیکھ کر یہ سمجھتا کہ مغرب کی نماز ہوچکی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہماری مدینہ میں عادت تھی کہ جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تو صحابہ ستونوں کی طرف لپکتے تھے اور دو دو رکعتیں پڑھتے تھے، حتی کہ ایک مسافر مسجد میں آتا تو یہ سمجھتا کہ مغرب کی نماز ہوچکی ہے کیونکہ لوگ کثرت سے یہ رکعتیں پڑھتے تھے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1939
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عہد مبارک میں نیکی کا شوق اور آخرت کی فکر بہت زیادہ تھی، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نفلی نمازوں کا بھی اہتمام کرتے تھے، جیسے جیسے دنیوی مال و دولت کی رغبت بڑھتی گئی اور لوگوں کے مشاغل ومصروفیات میں اضافہ ہوتا گیا، اس قدر نوافل کا اہتمام کم ہوتا گیا اس لیے بعد کے ادوار میں مغرب سے پہلے کی دو رکعتوں کو نظرانداز کر دیا گیا اور اس ترک عمل کا یہ نتیجہ نکلا کہ بعض حضرات نے تو ان کو بدعت قرار دے دیا، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کو سنت نہیں سمجھتے، حالانکہ لوگوں کے ترک کر دینے سے آپﷺ کی سنت تو منسوخ نہیں ہو جاتی جب یہ دو رکعت صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور آپﷺ کا صحیح حکم بھی موجود ہے تو ان کے استحباب میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔