الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
10. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَى التَّوْحِيدِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَطْعًا 
10. باب: موحد قطعی جنتی ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 144
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو الاحوص سلام بن سليم ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن معاذ بن جبل ، قال: كنت ردف رسول الله صلى الله عليه وسلم على حمار يقال له: عفير، قال: فقال: يا معاذ، تدري ما حق الله على العباد، وما حق العباد على الله؟ قال: قلت: الله ورسوله اعلم، قال: " فإن حق الله على العباد، ان يعبدوا الله ولا يشركوا به شيئا، وحق العباد على الله عز وجل، ان لا يعذب من لا يشرك به شيئا "، قال: قلت: يا رسول الله، افلا ابشر الناس؟ قال: لا تبشرهم فيتكلوا.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ يُقَالُ لَهُ: عُفَيْرٌ، قَالَ: فَقَالَ: يَا مُعَاذُ، تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ، وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ، أَنْ يَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا "، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: لَا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّكِلُوا.
عمرو بن میمون نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گدھے پر سوار تھا جسے عفیر کہا جاتا تھا۔ آپ نے فرمایا: اے معاذ! جانتے ہو، بندوں پر اللہ کاکیا حق ہے اور اللہ پربندوں کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: بندوں پر اللہ کاحق یہ ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں، اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو بندہ اس کے ساتھ (کسی چیزکو) شریک نہ ٹھہرائے، اللہ اس کو عذاب نہ دے۔ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو خوش خبری نہ سناؤں؟ آپ نے فرمایا: ان کو خوش خبری نہ سناؤ وورنہ وہ اسی پر بھروسہ کر لیں گے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ میں عفیر نامی گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے پیچھے سوار تھا۔ آپؐ نے فرمایا: اے معاذ! جانتے ہو اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے، جو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائے اس کو عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو خوش خبری نہ سناؤں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ان کو خوش خبری نہ دو وہ اسی پر بھروسا کر لیں گے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 30

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((الجهاد)) باب: اسم الفرس والحمار برقم (2701) وابوداؤد فى ((سننه)) فى الجهاد، باب: فى الرجل يسمى دابته باختصار برقم (2856) والترمذى فى ((جامعه)) فى الايمان، باب: ما جاء فى افتراق هذه الامة۔ ولم يذكر قصه الحمار، وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2643) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (11351)»

   صحيح البخاري2856معاذ بن جبلحق الله على العباد أن يعبدوه ولا يشركوا به شيئا حق العباد على الله أن لا يعذب من لا يشرك به شيئا أفلا أبشر به الناس قال لا تبشرهم فيتكلوا
   صحيح البخاري7373معاذ بن جبلأتدري ما حق الله على العباد قال الله ورسوله أعلم قال أن يعبدوه ولا يشركوا به شيئا أتدري ما حقهم عليه قال الله ورسوله أعلم قال أن لا يعذبهم
   صحيح مسلم145معاذ بن جبلما حق الله على العباد قلت الله ورسوله أعلم قال أن يعبد الله ولا يشرك به شيء أتدري ما حقهم عليه إذا فعلوا ذلك فقال الله ورسوله أعلم قال أن لا يعذبهم
   صحيح مسلم144معاذ بن جبلحق الله على العباد أن يعبدوا الله ولا يشركوا به شيئا حق العباد على الله أن لا يعذب من لا يشرك به شيئا أفلا أبشر الناس قال لا تبشرهم فيتكلوا
   جامع الترمذي2643معاذ بن جبلأتدري ما حق الله على العباد قلت الله ورسوله أعلم قال فإن حقه عليهم أن يعبدوه ولا يشركوا به شيئا حقهم عليه إذا فعلوا ذلك قلت الله ورسوله أعلم قال أن لا يعذبهم
   سنن ابن ماجه4296معاذ بن جبلحق الله على العباد أن يعبدوه ولا يشركوا به شيئا حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك أن لا يعذبهم
   مشكوة المصابيح24معاذ بن جبلقال فإن حق الله على العباد ان يعبدوه ولا يشركوا به شيئا وحق العباد على الله ان لا يعذب من لا يشرك به شيئا
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 144 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 144  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اَلْحَق:
حق موجود چیز کو کہتے ہیں،
اس لیے سچ،
صدق کو بھی حق کہہ دیتے ہیں،
کیونکہ وہ موجود ہے اور حق ہر اس چیز کو کہہ دیتے ہیں جس کا کرنا لازم اور ضروری ہے،
اس لیے فرائض جن کی ادائیگی ضروری ہے یا قرض جس کا ادا کرنا لازم ہے اس کو بھی حق کہہ دیتے ہیں۔
اللہ کا بندوں پر حق ہے،
کا معنی یہ ہے:
کہ بندہ پر اس کام کا کرنا لازم اور واجب ہے۔
اور بندوں کا اللہ پر حق ہے کا معنی یہ ہے کہ اس چیز کا پایا جانا قطعی اور یقینی ہے،
یہ معنی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ پر اس کا کرنا لازم واجب ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 144   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 24  
´اللہ تعالیٰ اور بندوں کا ایک دوسرے پر حق`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن معَاذ رَضِي الله عَنهُ قَالَ كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم على حمَار يُقَال لَهُ عفير فَقَالَ يَا معَاذ هَل تَدْرِي حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ قَالَ لَا تُبَشِّرُهُمْ فَيَتَّكِلُوا . . .»
. . . سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار تھے میں بھی آپ کے پیچھے اسی گدھے پر بیٹھا تھا، میرے اور آپ کے درمیان صرف کجاوہ کے پچھلی لکڑی کے سوا اور کسی چیز کا فاصلہ نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی کہ اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حق اس کے بندوں پر کیا ہے اور بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اس کو ایک جانیں اس کے ساتھ کسی کو اس کا شریک نہ سمجھیں اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اس کو عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر آپ اجازت مرحمت فرمائیں تو یہ خوشخبری لوگوں کو سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ خوشخبری نہ سناؤ لوگ اسی پر بھروسہ کر لیں گے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 24]
تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 2856]،
[صحیح مسلم 144،145]

فقہ الحدیث
➊ صرف اللہ ہی کی عبادت کرنا اور ہر قسم کے شرک سے مکمل اجتناب انتہائی اہم مسئلہ اور بنیادی عقیدہ ہے۔ اس عظیم الشان عقیدے پر اہل توحید ساری زندگی ثابت قدم رہتے ہیں اور ہر وقت کٹ مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
➋ اللہ تعالیٰ کا اہل توحید سے یہ وعدہ ہے وہ انہیں عذاب نہیں دے گا۔ اگر بعض موحدین کو ان کے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں داخل کیا گیا تو بعد میں ایک دن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انہیں جہنم سے نکال کر ابدی جنت میں داخل فرمائے گا۔
➌ ہر انسان کو چاہئے کہ اپنے سے افضل انسان کا کماحقہ احترام کرے۔ تمام معاملات میں اپنے آپ کو اس سے برتر ثابت کرنے کے بجائے، اسے اپنے آپ پر ترجیح دے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سواری پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس سے یہ بھی واضع ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر، چاہے وہ عوام میں سے ہو یا طلباء میں سے، یہ لازم ہے کہ علمائے حق کا احترام و ادب کرے۔
➍ اس حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ لوگ نیک اعمال کرنا چھوڑ دیں۔ اسی وجہ سے اسے عوام الناس کے سامنے بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ لوگوں کی غلط فہمی، فتنے اور دیگر مضر اثرات کے خوف کی وجہ سے بعض نصوص صحیحہ کا عام لوگوں کے سامنے بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے اور اگر بیان کیا جائے تو ان کی صحیح تشریح اور مفہوم بھی سمجھا دینا چاہئے۔
➎ اللہ کی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے مطابق اس کی عبادت کی جائے۔ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے تمام احکامات پر عمل کیا جائے۔ اگر اعمال صالحہ کو ترک کر کے اور کتاب و سنت سے ہٹ کر کوئی عبادت کی جائے تو اللہ کے ہاں اس کا کوئی وزن نہیں ہے، جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
➏ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کے باوجود یہ حدیث کیوں بیان کی تھی؟
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت گناہ کے خوف سے یہ حدیث بیان فرما دی تھی۔ حدیث میں آیا ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من كتم علماً تلجم بلجام من نار يوم القيامة»
جو شخص علم چھپائے گا اسے قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 95، الموارد: 95]
علماء کرام نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث چند خاص لوگوں کے سامنے بیان کی تھی، اور حدیث میں ممانعت عام لوگوں کے سامنے بیان کرنے کی ہے، یا یہ کہ ممانعت تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے۔ «والله اعلم»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 24   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 24  
´اللہ تعالیٰ اور بندوں کا ایک دوسرے پر حق`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن معَاذ رَضِي الله عَنهُ قَالَ كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم على حمَار يُقَال لَهُ عفير فَقَالَ يَا معَاذ هَل تَدْرِي حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ قَالَ لَا تُبَشِّرُهُمْ فَيَتَّكِلُوا . . .»
. . . سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار تھے میں بھی آپ کے پیچھے اسی گدھے پر بیٹھا تھا، میرے اور آپ کے درمیان صرف کجاوہ کے پچھلی لکڑی کے سوا اور کسی چیز کا فاصلہ نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی کہ اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حق اس کے بندوں پر کیا ہے اور بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اس کو ایک جانیں اس کے ساتھ کسی کو اس کا شریک نہ سمجھیں اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اس کو عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر آپ اجازت مرحمت فرمائیں تو یہ خوشخبری لوگوں کو سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ خوشخبری نہ سناؤ لوگ اسی پر بھروسہ کر لیں گے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 24]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 2856]،
[صحیح مسلم 144،145]

فقہ الحدیث
➊ صرف اللہ ہی کی عبادت کرنا اور ہر قسم کے شرک سے مکمل اجتناب انتہائی اہم مسئلہ اور بنیادی عقیدہ ہے۔ اس عظیم الشان عقیدے پر اہل توحید ساری زندگی ثابت قدم رہتے ہیں اور ہر وقت کٹ مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
➋ اللہ تعالیٰ کا اہل توحید سے یہ وعدہ ہے وہ انہیں عذاب نہیں دے گا۔ اگر بعض موحدین کو ان کے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں داخل کیا گیا تو بعد میں ایک دن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انہیں جہنم سے نکال کر ابدی جنت میں داخل فرمائے گا۔
➌ ہر انسان کو چاہئے کہ اپنے سے افضل انسان کا کماحقہ احترام کرے۔ تمام معاملات میں اپنے آپ کو اس سے برتر ثابت کرنے کے بجائے، اسے اپنے آپ پر ترجیح دے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سواری پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس سے یہ بھی واضع ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر، چاہے وہ عوام میں سے ہو یا طلباء میں سے، یہ لازم ہے کہ علمائے حق کا احترام و ادب کرے۔
➍ اس حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ لوگ نیک اعمال کرنا چھوڑ دیں۔ اسی وجہ سے اسے عوام الناس کے سامنے بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ لوگوں کی غلط فہمی، فتنے اور دیگر مضر اثرات کے خوف کی وجہ سے بعض نصوص صحیحہ کا عام لوگوں کے سامنے بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے اور اگر بیان کیا جائے تو ان کی صحیح تشریح اور مفہوم بھی سمجھا دینا چاہئے۔
➎ اللہ کی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے مطابق اس کی عبادت کی جائے۔ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے تمام احکامات پر عمل کیا جائے۔ اگر اعمال صالحہ کو ترک کر کے اور کتاب و سنت سے ہٹ کر کوئی عبادت کی جائے تو اللہ کے ہاں اس کا کوئی وزن نہیں ہے، جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
➏ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کے باوجود یہ حدیث کیوں بیان کی تھی؟
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت گناہ کے خوف سے یہ حدیث بیان فرما دی تھی۔ حدیث میں آیا ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من كتم علماً تلجم بلجام من نار يوم القيامة»
جو شخص علم چھپائے گا اسے قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 95، الموارد: 95]
علماء کرام نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث چند خاص لوگوں کے سامنے بیان کی تھی، اور حدیث میں ممانعت عام لوگوں کے سامنے بیان کرنے کی ہے، یا یہ کہ ممانعت تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے۔ «والله اعلم»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 24   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4296  
´روز قیامت اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید۔`
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گزرے اور میں ایک گدھے پر سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ جب وہ ایسا کریں تو وہ ان کو عذاب نہ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4296]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے۔
کہ اس موقع پر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہی آپ کے گدھے پر سوار تھے۔ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، باب اسم الفرس والحمار، حدیث 2856)

(2)
اللہ تعالیٰ بندوں کا خالق اور منعم ہے۔
اس لئے بندوں کالازمی فرض ہے۔
کہ صرف اسی کی عبادت کریں۔

(3)
اللہ کے ذمے قطعاً کسی کا کوئی حق نہیں۔
اللہ نے بندوں کا جو حق اپنے ذمے لیا ہے تو اس کے ذمے اس کے بندوں کا یہ حق محض اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے یہ حق اللہ نے خود اپنی رحمت سے اپنے ذمے لے لیا ہے۔

(4)
شرک نہ کرنے والے کو عذاب نہ دینے سے مراد دائمی عذاب نہ دینا ہے ورنہ دوسرے گناہوں کی سزا قبر میں قیامت کے دن اور جہنم میں ملےگی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4296   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2856  
2856. حضرت معاذ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک مرتبہ نبی ﷺ کے پیچھے گدھے پر سوار تھا اور اس گدھے کا نام عفیرتھا۔ آپ نے فرمایا: اے معاذ! اور کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا اس کے بندوں پر کیا حق ہے؟ اور بندوں کا اللہ تعالیٰ پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو کوئی اس کا شریک نہ ٹھہرائے اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو ورنہ (خالی) تو کل کرکے بیٹھ رہیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2856]
حدیث حاشیہ:
یہاں گدھے کا نام عفیر مذکور ہے‘ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
حدیث ہذا سے شرک کی انتہائی مذمت اور توحید کی انتہائی خوبی بھی ثابت ہوئی۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات میں مذکور ہے کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے جو شخص بحالت شرک دنیا سے چلا گیا‘ اس کے لئے جنت قطعاً حرام ہے۔
وہ ہمیشہ کے لئے نار دوزخ میں جلتا رہے گا۔
صد افسوس کہ کتنے نام نہاد مسلمان ہیں جو قرآن مجید پڑھنے کے باوجود اندھے ہو کر شرکیہ کاموں میں گرفتار ہیں بلکہ بت پرستوں سے بھی آگے بڑھے ہوئے ہیں۔
جو قبروں میں دفن شدہ بزرگوں سے حاجات طلب کرتے‘ دور دراز سے ان کی دہائی دیتے اور ان کے ناموں کی نذر نیاز کرتے ہیں اور ایسے ایسے غلط اعتقادات بزرگوں کے بارے میں رکھتے ہیں جو اعتقاد کھلے ہوئے شرکیہ اعتقادہیں اور جو بت پرستوں کو ہی زیب دیتے ہیں مگر نام نہاد مسلمانوں نے اسلام کو برباد کردیا ہے ھداھم اللہ إلی صراط مستقیم توحید و شرک کی تفصیلات کے لئے تقویۃ الایمان کا مطالعہ نہایت اہم اور ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2856   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7373  
7373. سیدنا معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: اے معاذ! تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر کیا حق ہے؟ سیدنا معاذ ؓ نے کہا: اللہ کے رسولﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نےفرمایا: (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) وہ اللہ کی عبادت کریں اوراس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں۔ تو جانتا ہے کہ ان بندوں کے حق اللہ کے ذمے کیا ہیں؟ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نےفرمایا: یہ کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7373]
حدیث حاشیہ:
عبادت وبندگی کے کاموں میں اللہ پاک کو وحدہ لا شریک له مانے۔
یہی وہ حق ہے جو اللہ نے اپنے ہر بندے بندی کے ذمہ واجب قرار دیا ہے۔
بندے ایسا کریں تو ان کا حق بذمہ اللہ پاک یہ ہے کہ وہ ان کو بخش دے اور جنت میں داخل کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7373   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7373  
7373. سیدنا معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: اے معاذ! تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر کیا حق ہے؟ سیدنا معاذ ؓ نے کہا: اللہ کے رسولﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نےفرمایا: (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) وہ اللہ کی عبادت کریں اوراس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں۔ تو جانتا ہے کہ ان بندوں کے حق اللہ کے ذمے کیا ہیں؟ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نےفرمایا: یہ کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7373]
حدیث حاشیہ:

اس مقام پر یہ حدیث اختصار کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔
اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے غفیر نامی گدھے پر سوارتھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تین دفعہ آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کیا، پھر فرمایا:
تم جانتے ہو کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟ انھوں نے عرض کی:
اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ کا اپنے بندوں پر حق ہے کہ وہ خالص اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔
آگے چل کر پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آواز دے کرمتوجہ کیا اور فرمایا:
کیا تمھیں علم ہے کہ جب اس کے بندے اللہ کا حق ادا کریں تو بندوں کا اللہ کے ذمے کیا حق ہے؟ عرض کی:
اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)
ہی بہتر جانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں تو وہ انھیں عذاب نہ دے۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2856)

اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے اس حق کی وضاحت مقصود ہے جو اس کے بندوں پر عائد ہوتا ہے اور وہ ہے شرک سے دور رہتے ہوئے اس کی عبادت کرنا۔
اس عبادت سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہو۔
دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری اور اس کے منع کردہ کاموں سے بچنا اس کی عبادت ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ کسی ذاتی غرض اور دنیوی فائدے کے پیش نظر اپنے خالق حقیقی کی مخالفت نہ کرے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بندوں پر اللہ تعالیٰ کے حقوق کی وضاحت کر دی ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ ان سے مال برابر بھی انحراف نہ کرے۔

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذمے بندوں کے حقوق بندوں کی بجاآوری کا عوض نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے انھیں اپنے ذمے لیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تمہارے رب نے اپنے آپ پر رحمت کرنا لازم کرلیاہے۔
(الأنعام: 54)
نیز فرمایا:
اہل ایمان کی مدد کرنا ہمارے ذمے ہے۔
(الروم: 47)
حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
میرے بندو! میں نےخود پر ظلم حرام قرار دیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام کرتا ہوں، لہذا تم کسی پر ظلم نہ کیا کرو۔
(صحیح مسلم، البر والصلة، حدیث: 6572 (2577)
عبادت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کےساتھ شرک نہ کرنا توحید الوہیت ہے۔
مشرکین اس سے انکار کرتے تھے۔
افسوس کہ دور حاضر میں مسلمانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ بزرگوں کی بندگی بھی کرتے ہیں۔
ان کے نام کی نذرونیازدیتے ہیں بلکہ بعض نام نہاد مسلمان تو قبروں کوسجدہ بھی کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توحید الوہیت کی سمجھ عطا فرمائے اور اس پر گامزن رکھے۔
یہی وہ حق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واجب قرار دیا ہے۔
جب بندے اس کی بجاآوری کریں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں جہنم سے بری کرکے جنت میں داخل فرمائے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7373   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.