(حديث مقطوع) اخبرنا الحسن بن عرفة، حدثنا المبارك بن سعيد، عن اخيه سفيان الثوري، عن عمران المنقري، قال: قلت للحسن يوما في شيء، قاله: يا ابا سعيد، ليس هكذا يقول الفقهاء، فقال: "ويحك! ورايت انت فقيها قط , إنما الفقيه الزاهد في الدنيا، الراغب في الآخرة، البصير بامر دينه، المداوم على عبادة ربه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَخِيهِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عِمْرَانَ الْمِنْقَرِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ يَوْمًا فِي شَيْءٍ، قَالَهُ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، لَيْسَ هَكَذَا يَقُولُ الْفُقَهَاءُ، فَقَالَ: "وَيْحَكَ! وَرَأَيْتَ أَنْتَ فَقِيهًا قَطُّ , إِنَّمَا الْفَقِيهُ الزَّاهِدُ فِي الدُّنْيَا، الرَّاغِبُ فِي الْآخِرَةِ، الْبَصِيرُ بِأَمْرِ دِينِهِ، الْمُدَاوِمُ عَلَى عِبَادَةِ رَبِّهِ".
عمران منقری نے کہا کہ میں نے ایک دن حسن رحمہ اللہ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا جو انہوں نے کہی تھی کہ اے ابوسعید! فقہاء تو اس طرح نہیں کہتے، انہوں نے جواب دیا: تمہاری خرابی ہو، کیا تم نے کبھی کوئی فقیہ دیکھا ہے، فقیہ وہ ہے جو دنیا سے کنارہ کش ہو، آخرت کی طرف رغبت رکھتا ہو، دین کے معاملے میں بصیر ہو، اور اپنے رب کی عبادت پر قائم و دائم ہو۔
وضاحت: (تشریح احادیث 298 سے 301) یعنی عالم بننے کے لئے طالبِ علم اور باعمل ہونا ضروری ہے، اور خالی بحث و مباحثہ، علم میں تعلیٰ، غرور و گھمنڈ رکھنا، اور دینی باتوں کے بجائے فالتو بکواس میں لگے رہنا، یہ سب گناہ ہیں، ایک عالم کو ان سب سے بچنا چاہئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 302]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 17037]، [حلية الاولياء 147/2]، [زهد ابن مبارك 30]، [الفقيه والمتفقه 1066]