بجالہ نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجوس سے جزیہ نہیں لیا تھا یہاں تک کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے مجوس سے جزیہ لیا تھا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2536) مجوس وہ لوگ ہیں جو آگ کی عبادت و پوجا کرتے ہیں، اور ہجر بحرین کا بہت بڑا شہر تھا جو احساء کے قریب تھا، اور جزیہ وہ معاوضہ ہے جو اہلِ ذمہ سے ان کے دار السلام میں رہنے اور ان کی جان و مال کی حفاظت کے بدلے میں لیا جاتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجوسی مشرکین سے جزیہ وصول کیا جائے گا، اور یہ صرف اہلِ کتاب پر نہیں، جیسا کہ بعض علماء کا خیال ہے، بلکہ دیگر مشرکین سے بھی جزیہ وصول کیا جائے گا۔ (عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2543]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3156]، [أبوداؤد 3043]، [ترمذي 1586]، [أبويعلی 860]، [الحميدي 64]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري