سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر

سنن دارمي
حج اور عمرہ کے بیان میں
51. باب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِجَمْعٍ:
51. مزدلفہ میں جمع بین الصلاتین کا بیان
حدیث نمبر: 1922
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا ابن ابي ذئب، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم "صلى المغرب والعشاء بالمزدلفة، لم يناد في واحدة منهما إلا بالإقامة، ولم يسبح بينهما، ولا على إثر واحدة منهما".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "صَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، لَمْ يُنَادِ فِي وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا إِلَّا بِالْإِقَامَةِ، وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا، وَلَا عَلَى إِثْرِ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب و عشاء ملا کر پڑھیں تو کسی نماز کے لئے اذان نہیں دی، بس صرف ایک بار اقامت ہوئی، نہ دونوں نمازوں کے درمیان سنت یا نفل پڑھے نہ نماز کے بعد میں۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1918 سے 1922)
ان احادیث سے مزدلفہ میں بھی جمع بین الصلاتین یعنی مغرب عشاء ملا کر پڑھنے کا ثبوت ملا، اختلاف اذان اور اقامت کے سلسلے میں ہے، کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس بارے میں مختلف راویات مروی ہیں، مذکورہ بالا روایت میں صرف اقامت کا ذکر ہے، اس سلسلے میں علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں، صحیح یہ ہے کہ جمع بین الصلاتین میں پہلی نماز کے لئے اذان دی جائے اور اقامت (تکبیر) دونوں نمازوں کے لئے کہی جائے۔
اہل الحدیث، حنابلہ اور شافعیہ کا یہی مسلک ہے اور یہی راجح ہے، بعض علماء نے دو اذان، دو اقامت اور بعض نے کہا نہ اذان نا اقامت، بعض نے کہا صرف اقامت کہی جائے اذان نہیں، صحیح مسلک وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا۔
مزدلفہ کو جمع کہتے ہیں کیونکہ وہاں حضرت آدم و حضرت حواء علیہم السلام جمع ہوئے تھے، بعض نے کہا کہ وہاں دو نمازیں جمع کی جاتی ہیں۔
ابن منذر رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ مزدلفہ میں دونوں نمازوں کے بیچ میں نفل و سنّت نہ پڑھے، ابن منذر رحمہ اللہ نے کہا: جو کوئی بیچ میں سنّت یا نفل پڑھے گا تو اس کا جمع صحیح نہ ہوگا۔
(وحیدی)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1926]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1092، 1673]، [مسلم 1988]، [أبوداؤد 1928]، [نسائي 659، 3028]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.