حدثنا إسماعيل قال: حدثني سليمان، عن معاوية بن ابي مزرد، عن يزيد بن رومان، عن عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”الرحم شجنة من الله، من وصلها وصله الله، ومن قطعها قطعه الله.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي مُزَرِّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”الرَّحِمُ شُجْنَةٌ مِنَ اللهِ، مَنْ وَصَلَهَا وَصَلَهُ اللَّهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعَهُ اللَّهُ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رحم اللہ سے لیا گیا ہے، جو اس (رحم) کو ملائے گا، اللہ تعالیٰ اسے ملائے گا، اور جو اسے کاٹے گا اللہ اسے کاٹ دے گا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر والصلة، باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها: 2555 و البخاري: 5989، الصحيحة: 925»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 55
فوائد ومسائل: (۱)یہ حدیث بھی سابقہ احادیث کی طرح صلہ رحمی کی فضیلت پر مبنی ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ یہی بات رحم (رشتہ داری)نے عرش الٰہی سے چمٹ کر کہی تو اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرمایا: ارشاد نبوی ہے: ((الرَّحِمُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرشِ تَقُولُ: مَنْ وَصَلَنِي وَصَلَهُ اللّٰهُ وَمَنْ قَطَعَنِی قَطَعَهُ اللّٰهُ))(صحیح مسلم، البر والصلة، حدیث: ۲۵۵۵) ”رحم عرش الٰہی سے معلق یہ پکار رہا ہے: جو مجھے ملائے گا اللہ اسے ملائے گا اور جو مجھے توڑے گا اللہ تعالیٰ اسے توڑے گا۔“ (۲) دور حاضر میں مفاد پرستی وبا کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ ایسی صورت حال میں صلہ رحمی کرنا یقیناً بہت بڑے اجر کا باعث ہے۔ قطع رحمی کی وجوہات عموماً ایسی ہوتی ہیں کہ اگر انسان تھوڑا بہت غور فکر کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ ناراضگی کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ عزیز واقارب میں معمولی معمولی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ رشتہ داری دشمنی میں بدل جاتی ہے۔ (۳) قطع رحمی کی ایک وجہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز ہے۔ اگر ہر رشتہ دار اپنے دائرہ کار تک محدود رہے اور کسی دوسرے کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی نہ کرے، نیز دوسرے کی رائے اور جذبات کی قدر کرے تو بہت زیادہ معاملات درست ہوسکتے ہیں۔ ہر رشتہ دار دوسرے پر اپنا حق تو سمجھتا ہے لیکن رشتہ داری کے تقاضوں کو پورا کرنے کا کبھی نہیں سوچتا۔ نتیجہ اختلاف اور قطع رحمی کی صورت میں نکلتا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 55