حدثنا احمد بن عيسى، قال: حدثنا عبد الله بن وهب، قال: اخبرنا عمرو بن الحارث، ان ابا النضر حدثه، عن سليمان بن يسار، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضاحكا قط حتى ارى منه لهواته، إنما كان يتبسم صلى الله عليه وسلم، قالت: وكان إذا راى غيما او ريحا عرف في وجهه، فقالت: يا رسول الله، إن الناس إذا راوا الغيم فرحوا، رجاء ان يكون فيه المطر، واراك إذا رايته عرفت في وجهك الكراهة؟ فقال: ”يا عائشة، ما يؤمني ان يكون فيه عذاب؟ عذب قوم بالريح، وقد راى قوم العذاب منه فقالوا: ﴿هذا عارض ممطرنا﴾ [الاحقاف: 24].“حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَاحِكًا قَطُّ حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَكَانَ إِذَا رَأَى غَيْمًا أَوْ رِيحًا عُرِفَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْغَيْمَ فَرِحُوا، رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ فِيهِ الْمَطَرُ، وَأَرَاكَ إِذَا رَأَيْتَهُ عُرِفَتْ فِي وَجْهِكَ الْكَرَاهَةُ؟ فَقَالَ: ”يَا عَائِشَةُ، مَا يُؤْمِنِّي أَنْ يَكُونَ فِيهِ عَذَابٌ؟ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيحِ، وَقَدْ رَأَى قَوْمٌ الْعَذَابَ مِنْهُ فَقَالُوا: ﴿هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا﴾ [الأحقاف: 24].“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اس طرح ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کا حلق نظر آیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسکراتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی بادل دیکھتے یا آندھی چلتی تو آپ کے چہرے سے پریشانی نمایاں ہو جاتی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگ بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اس امید پر کہ بارش ہو گی، اور آپ کو میں دیکھتی ہوں کہ آپ جب بادل دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے پر ناگواری کے اثرات ہوتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! مجھے کیا اطمینان ہے کہ اس میں عذاب ہو؟ ایک قوم کو سخت ہوا کے ذریعے سے عذاب دیا گیا اور جب اس قوم نے عذاب دیکھا تو کہا: ”یہ بادل ہے جو ہم پر پانی برسانے والا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التفسير، سورة الأحقاف: 4829 و مسلم: 899 و أبوداؤد: 5098 و الترمذي: 3257 و ابن ماجة: 3891»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 251
فوائد ومسائل: (۱)اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے کہ آپ جب مسکراتے تو قہقہہ نہیں لگاتے تھے بلکہ آپ کا اکثر معمول تبسم فرمانے کا تھا اور کبھی کبھار اس طرح بھی ہنستے کہ آپ کی ابتدائی داڑھیں نظر آتیں۔ (۲) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے زیادہ ہنسنے سے منع فرمایا ہے۔ تبسم والی روایت سے یہ شبہ پڑ سکتا ہے کہ آپ خود تو ہر وقت مسکراتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صراحت کر دی کہ جو ہنسنا منع ہے ایسا تو آپ کبھی نہیں ہنسے اور مسکراہٹ محض اظہار مسرت ہے جو آپ فرماتے اور یہ ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے تاکہ دوسرا مسلمان خوش ہو جائے۔ پھر آپ تو ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہتے تھے حتی کہ اگر کبھی بادل آجاتے تو بھی اللہ کے عذاب سے ڈر کر خوف زدہ ہو جاتے کہ کہیں پہلی قوموں کی طرح ہمیں بھی تباہ نہ کر دیا جائے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 251