حدثنا محمد بن عباد، قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن يعقوب بن مجاهد ابي حزرة، عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت قال: خرجت انا وابي نطلب العلم في هذا الحي في الانصار، قبل ان يهلكوا، فكان اول من لقينا ابو اليسر صاحب النبي صلى الله عليه وسلم ومعه غلام له، وعلى ابي اليسر بردة ومعافري، وعلى غلامه بردة ومعافري، فقلت له: يا عمي، لو اخذت بردة غلامك واعطيته معافريك، او اخذت معافريه واعطيته بردتك، كانت عليك حلة او عليه حلة، فمسح راسي وقال: اللهم بارك فيه، يا ابن اخي، بصر عيني هاتين، وسمع اذني هاتين، ووعاه قلبي واشار إلى نياط قلبه النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ”اطعموهم مما تاكلون، واكسوهم مما تلبسون“، وكان ان اعطيه من متاع الدنيا اهون علي من ان ياخذ من حسناتي يوم القيامة.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ مُجَاهِدِ أَبِي حَزْرَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِي نَطْلُبُ الْعِلْمَ فِي هَذَا الْحَيِّ فِي الأَنْصَارِ، قَبْلَ أَنْ يَهْلِكُوا، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِينَا أَبُو الْيَسَرِ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ غُلاَمٌ لَهُ، وَعَلَى أَبِي الْيَسَرِ بُرْدَةٌ وَمَعَافِرِيٌّ، وَعَلَى غُلاَمِهِ بُرْدَةٌ وَمَعَافِرِيٌّ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا عَمِّي، لَوْ أَخَذْتَ بُرْدَةَ غُلاَمِكَ وَأَعْطَيْتَهُ مَعَافِرِيَّكَ، أَوْ أَخَذْتَ مَعَافِرِيَّهُ وَأَعْطَيْتَهُ بُرْدَتَكَ، كَانَتْ عَلَيْكَ حُلَّةٌ أَوْ عَلَيْهِ حُلَّةٌ، فَمَسَحَ رَأْسِي وَقَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ فِيهِ، يَا ابْنَ أَخِي، بَصَرُ عَيْنَيَّ هَاتَيْنِ، وَسَمْعُ أُذُنَيَّ هَاتَيْنِ، وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَشَارَ إِلَى نِيَاطِ قَلْبِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”أَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ، وَاكْسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ“، وَكَانَ أَنْ أُعْطِيَهُ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَيَّ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ حَسَنَاتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
حضرت عبادة بن ولید بن عبادہ سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد گرامی انصار کے ایک قبیلے میں حصول علم کے لیے گئے تاکہ ان کے ختم ہونے سے پہلے پہلے علم سیکھ لیں۔ سب سے پہلے ہماری ملاقات جس شخص سے ہوئی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا ابوالیسر رضی اللہ عنہ تھے، اور ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا۔ سیدنا ابوالیسر رضی اللہ عنہ ایک چادر اور معافری کپڑا پہنے ہوئے تھے اور ان کے غلام کا لباس بھی ایک چادر اور معافری کپڑا تھا۔ میں نے كہا: چچا جان! اگر آپ غلام سے دھاری دار چادر لے لیتے اور اسے معافری کپڑا دے دیتے یا اس سے معافری کپڑا لے لیتے اور اپنی چادر اسے دے دیتے تو دونوں پر ایک جیسا جوڑا ہو جاتا۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا: اے اللہ! اسے برکت دے۔ اے میرے بھتیجے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ان دونوں آنکھوں سے دیکھا، ان دونوں کانوں سے سنا، اور میرے دل نے اسے یاد رکھا، اور دل کی طرف اشارہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”انہیں بھی وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، اور انہیں بھی اپنے جیسا لباس پہناؤ۔“ اور میں اسے دنیا کے مال سے دوں یہ میرے لیے اس سے زیادہ آسان ہے کہ وہ روز قیامت میری نیکیوں سے لے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الزهد، باب حديث جابر الطويل وقصة أبى اليسر: 3006»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 187
فوائد ومسائل: مطلب یہ ہے کہ غلام اور خدام بھی انسان ہیں اور ان کی بھی عزت نفس ہے اس لیے انہیں بھی اپنے جیسا کھانا اور لباس دینا چاہیے تاکہ ان میں احساس کمتری پیدا نہ ہو۔ ایسا کرنے سے ان کے دل میں مالکان کی محبت پیدا ہوگی۔ اس لیے ابو الیسر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ لباس کی نوعیت میں معمولی سا بھی فرق ہو۔ یہ ان کا تقویٰ اور ورع تھا ورنہ بعینہٖ لباس ضروری نہیں مقصود یہ ہے کہ خود عمدہ کھاؤ تو انہیں بھی عمدہ کھلاؤ اور خود اعلیٰ پہنو تو انہیں بھی اعلیٰ پہناؤ۔ عصر حاضر میں ہمارا ملازمین خصوصاً گھریلو ملازمین سے رویہ نہایت قابل افسوس ہے کہ پس خوردہ ان کو دیا جاتا ہے۔ اپنے پرانے کپڑے ان کو عطا کیے جاتے ہیں نتیجتاً وہ بھی خیر خواہی اور محبت کے جذبات سے عاری ہوتے ہیں اور محض ڈیوٹی برائے ڈیوٹی کی صورت میں دن گزارتے ہیں اور خیانت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 187