حدثنا موسى، قال: حدثنا ابو عوانة، قال: حدثنا فراس، عن ابي صالح، عن زاذان ابي عمر قال: كنا عند ابن عمر، فدعا بغلام له كان ضربه فكشف عن ظهره فقال: ايوجعك؟ قال: لا. فاعتقه، ثم رفع عودا من الارض فقال: مالي فيه من الاجر ما يزن هذا العود، فقلت: يا ابا عبد الرحمن، لم تقول هذا؟ قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول او قال: ”من ضرب مملوكه حدا لم ياته، او لطم وجهه، فكفارته ان يعتقه.“حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا فِرَاسٌ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ زَاذَانَ أَبِي عُمَرَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَدَعَا بِغُلاَمٍ لَهُ كَانَ ضَرَبَهُ فَكَشَفَ عَنْ ظَهْرِهِ فَقَالَ: أَيُوجِعُكَ؟ قَالَ: لاَ. فَأَعْتَقَهُ، ثُمَّ رَفَعَ عُودًا مِنَ الأَرْضِ فَقَالَ: مَالِي فِيهِ مِنَ الأَجْرِ مَا يَزِنُ هَذَا الْعُودَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، لِمَ تَقُولُ هَذَا؟ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَوْ قَالَ: ”مَنْ ضَرَبَ مَمْلُوكَهُ حَدًّا لَمْ يَأْتِهِ، أَوْ لَطَمَ وَجْهَهُ، فَكَفَّارَتُهُ أَنْ يُعْتِقَهُ.“
زاذان ابوعمر سے روایت ہے کہ ہم سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھے تو انہوں نے اپنے ایک غلام کو بلایا جسے انہوں نے مارا تھا۔ اس کی کمر سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا: کیا تجھے درد ہوتی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، تو آپ نے اسے آزاد کر دیا۔ پھر ایک لکڑی زمین سے پکڑی اور فرمایا: اس میں میرے لیے اس لکڑی کے وزن کے برابر بھی ثواب نہیں۔ میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! تم ایسا کیوں کہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے اپنے غلام کو بغیر قصور کے مارا یا اسے طمانچہ رسید کیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کرے۔“
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 180
فوائد ومسائل: ان احادیث میں درج ذیل باتوں کی تاکید کی گئی ہے۔ ۱۔ غلام اور خادم بھی انسان ہیں اور ان کی عزت نفس کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ بلاوجہ انہیں بے عزت کرنا اور مارنا ناجائز ہے، تاہم ادب سکھانے کے لیے ہلکی پھلکی مار جائز ہے۔ ۲۔ بوقت ضرورت جو مار جائز ہے اس میں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ چہرے پر نہ مارا جائے۔ ۳۔ اگر کسی شخص نے اپنے غلام اور خادم کو بلاوجہ مارا یا چہرے پر مارا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے، نیز ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول ”مجھے اس لکڑی کے برابر بھی ثواب نہیں ملا“ سے معلوم ہوتا ہے کہ کفارے کی صورت میں آزاد کیے گئے غلام کا اجر و ثواب نہیں ملتا۔ وہ صرف گناہ کا کفارہ ہوتا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 180