حدثنا إسماعيل قال: حدثني مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إياكم و الظن، فإن الظن اكذب الحديث، ولا تجسسوا، ولا تنافسوا، ولا تدابروا، ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا، وكونوا عباد الله إخوانا.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِيَّاكُمْ وَ الظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَنَافَسُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو، اور نہ دنیا میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرو۔ ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو، اور نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، اور نہ بغض ہی رکھو، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6066 و مسلم: 2563 و أبوداؤد: 4917»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1287
فوائد ومسائل: حدیث میں ظن سے مراد برا گمان ہے کیونکہ اچھا گمان مطلوب ہے۔ بدگمانی یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی جگہ دیکھ کر کہنا کہ یہ فلاں برائی کے لیے ادھر گیا ہوگا۔ یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ مسلمان کو ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1287