الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 85
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ وضوء میں پاؤں دھونا فرض ہیں، اور مذکورہ حدیث سے ان لوگوں کا بھی رد ہوتا ہے جو صرف مسح کرنے کے قائل ہیں حالانکہ پاؤں پر مسح نہیں، بلکہ پاؤں کو اچھی طرح دھونا فرض ہے۔ اور مسح اس وقت ہو سکتا ہے جب باوضو حالت میں موزے یا جرابیں پہنی ہوں یا پاؤں پر کوئی زخم ہو اور پانی سے نقصان کا اندیشہ ہو۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ نامکمل وضو باعث ہلاکت ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ صاحب ایمان بھی اپنے کسی گناہ کی وجہ سے جہنم کے عذاب کا مستحق ہو سکتا ہے، لیکن دائمی عذاب نہیں ہوگا۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نامکمل وضو قابل قبول نہیں، لہٰذا اچھی طرح وضو کرنا چاہیے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا اس کے پاؤں میں ناخن کے برابر جگہ ایسی تھی جہاں پانی نہیں پہنچا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جاؤ اور اچھے طریقے سے وضو کرو۔“(سنن ابوداؤد، رقم: 173۔ سنن ابن ماجہ، رقم: 665)