اخبرنا عبد الله بن الحارث المخزومي، عن ابن جريج، ان زيادا اخبره ان ثابتا مولى عبد الرحمن بن زيد اخبره انه، سمع ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((يسلم الراكب على الماشي، والماشي على القاعد والاقل على الاكثر)).أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيُّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَنَّ زِيَادًا أَخْبَرَهُ أَنَّ ثَابِتًا مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ وَالَأَقَلُّ عَلَى الْأَكْثَرِ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: جب یہ آیت: ”جو شخص برائی کرے گا وہ اس کا بدلہ پائے گا۔“ نازل ہوئی تو مسلمانوں پر گراں گزرا اور انہیں سخت تکلیف پہنچی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب رہو اور میانہ روی اختیار کرو، مومن کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، اس میں اس کے لیے کفارہ ہے حتیٰ کہ اسے کانٹا بھی چبھ جائے (تو یہ بھی باعث کفارہ ہے)۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الاستذان، باب تسليم الراكب على الماشي، رقم: 6232. مسلم، كتاب السلام، باب بسلم الراكب على الماشي الخ، رقم: 2160. سنن ابوداود، رقم: 5199. سنن ترمذي، رقم: 2703. ادب المفرد، رقم: 993.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 795 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 795
فوائد: مذکورہ حدیث میں سلام کے آداب بتائے گئے ہیں، سلام میں ابتداء کی مذکورہ ترتیب میں جو حکمتیں ہیں، اہل علم نے اپنی اپنی دانست کے مطابق وہ بیان فرمائی ہیں، اصل حکمت اللہ ہی کے پاس ہے۔ اور اسی کا علم کامل ہے۔ (1).... سوار پیدل چلنے والے کو: اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے سواری کی نعمت عطا فرمائی ہے تو اس کا حق ہے کہ وہ تواضع اختیار کرے، اگر پیدل کو حکم ہوتا کہ وہ سوار کو پہلے سلام کہے تو خطرہ تھا کہ سوار کے دل میں تکبر پیدا نہ ہو جائے۔ (2).... چلنے والا بیٹھے ہوئے کو: اس لیے کہ بیٹھے ہوئے شخص کا ہرگززنے والے کی طرف بار بار از خود متوجہ ہو کر سلام کہنا مشکل ہے۔ جب کہ گزرنے والے کو ایسی کوئی مشکل نہیں۔ (3).... کم زیادہ کو: اس لیے کہ کثیر لوگوں کا تھوڑے لوگوں پر زیادہ حق ہے، اور اس لیے بھی کہ زیادہ لوگ تھوڑے لوگوں کو یا اکیلے شخص کو پہلے سلام کہیں تاکہ میں خود بینی اور کبر نہ پیدا ہو جائے۔ صحیح بخاری میں ہے ((یُسَلِّمُ الصَّغِیْرُ عَلَی الْکَبِیْرِ)(بخاري، رقم: 6234)”چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ “ (4).... چھوٹے کو سلام میں پہل کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ بڑے کا حق چھوٹے پر زیادہ ہے، کیونکہ چھوٹے کو حکم ہے کہ بڑے کی توقیر کرے اور اس کے ساتھ باادب رہے۔ لیکن جس شخص کو سلام کہنے کا حکم ہے وہ سلام نہیں کہتا تو دوسرے کو سلام کہہ دینا چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیلانے کی بہت تاکید کی ہے۔ اور حدیث سے ثابت ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے بچوں کو بھی سلام کہتے۔