اخبرنا النضر، نا حماد بن سلمة، عن جعفر، وهو ابن ابي وحشية، عن شهر بن حوشب، عن ابي هريرة رضي الله عنه قال:" تنازعنا اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذه الآية في ﴿كشجرة خبيثة اجتثت من فوق الارض ما لها من قرار﴾ [إبراهيم: 26] فقلنا: نحسبها الكماة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ((ماذا تذاكرون؟)) فقلنا: هذه الآية في الشجرة التي ذكرها الله، فقلنا: نحسبها الكماة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((الكماة من المن وماؤها شفاء للعين، والعجوة من الجنة وهي شفاء من السم)).أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ جَعْفَرٍ، وَهُوَ ابْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:" تَنَازَعَنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ فِي ﴿كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ﴾ [إبراهيم: 26] فَقُلْنَا: نَحْسَبُهَا الْكَمْأَةُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((مَاذَا تَذَاكَرُونَ؟)) فَقُلْنَا: هَذِهِ الْآيَةَ فِي الشَّجَرَةِ الَّتِي ذَكَرَهَا اللَّهُ، فَقُلْنَا: نَحْسَبُهَا الْكَمْأَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ، وَالْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ وَهِيَ شِفَاءٌ مِنَ السُّمِّ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم (اصحاب رسول) نے اس آیت: ”شجر خبیث کی طرح جسے زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے اسے ثبات نہ ہو۔“(کی تفہیم) میں اختلاف کیا، ہم نے کہا: ہم اسے کھمبی خیال کرتے ہیں، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا: ”تم کس چیز کا تذکرہ کر رہے ہو؟“ ہم نے عرض کیا: اس آیت میں اس درخت کے بارے میں جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے۔ ہم نے کہا: ہم اس سے کھمبی مراد لیتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھمبی، (بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے) «مَن» میں سے ہے، اس کا پانی آنکھ کے لیے باعث شفاء ہے اور عجوہ (کھجور) جنت میں سے ہے اور وہ زہر کا تریاق ہے۔“