اخبرنا عفان بن مسلم، نا حماد بن سلمة، عن ثابت البناني، عن عبد الله بن رباح، قال: وفدنا على معاوية وفينا ابو هريرة رضي الله عنه وكان يلي طعام القوم كل يوم رجل منا، فكان يومي فاجتمع عندي، ولما يدرك طعامهم، فقال ابو هريرة: شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فتح مكة، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((يا ابا هريرة ادع لي الانصار)) فدعوتهم فجاءوا يهرولون، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((يا معشر الانصار اترون اوباش قريش، إذا لقيتموهم غدا فاحصدوهم حصدا)) قال حماد بيده اليمنى على اليسرى ((ثم موعدكم الصفا))، فاستعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم خالد بن الوليد على المجنبة اليمنى والزبير بن العوام على المجنبة اليسرى، قال: واستعمل ابا عبيدة بن الجراح على البارقة في بطن الوادي، فقال: فلما كان من الغد لقيناهم، قال: فلم يسرف من القوم احد إلا اناموه، قال: وفتح لرسول الله صلى الله عليه وسلم حتى صعد الصفا فجاءت الانصار فاحاطوا برسول الله صلى الله عليه وسلم عند الصفا فجاء ابو سفيان، فقال: يا رسول الله، ابيدت خضراء قريش" لا قريش بعد اليوم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((من دخل داره فهو آمن، من القى سلاحه فهو آمن، من دخل دار ابي سفيان فهو آمن، ومن اغلق بابه فهو آمن))، فقالت الانصار: اما رسول الله صلى الله عليه وسلم فقد اخذته رحمة في قومه ورغبة في قريته، ونزل الوحي على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما سري عنه قال: ((يا معشر الانصار، اقلتم اما رسول الله صلى الله عليه وسلم فقد ادركته رحمة في قومه ورغبة في قريته، فما اسمي إذا، انا عبد الله ورسوله، هاجرت إلى الله وإليكم، فالمحيا محياكم، والممات مماتكم))، قالوا: يا رسول الله، ما قلنا ذلك إلا ضنا بالله وبرسوله، قال: ((فإن الله ورسوله يصدقانكم ويعذرانكم)).أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ، قَالَ: وَفَدْنَا عَلَى مُعَاوِيَةَ وَفِينَا أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ يَلِي طَعَامَ الْقَوْمِ كُلَّ يَوْمٍ رَجُلٌ مِنَّا، فَكَانَ يَوْمِي فَاجْتَمَعَ عِنْدِي، وَلَمَّا يُدْرِكَ طَعَامَهُمْ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتْحَ مَكَّةَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ادْعُ لِيَ الْأَنْصَارَ)) فَدَعَوْتُهُمْ فَجَاءُوا يُهَرْوِلُونَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَتَرَوْنَ أَوْبَاشَ قُرَيْشٍ، إِذَا لَقِيتُمُوهُمْ غَدًا فَاحْصُدُوهُمْ حَصْدًا)) قَالَ حَمَّادٌ بِيَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى ((ثُمَّ مَوْعِدُكُمُ الصَّفَا))، فَاسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْيُمْنَى وَالزُّبَيْرَ بنَ الْعَوَّامِ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْيُسْرَى، قَالَ: وَاسْتَعْمَلَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجرَّاحِ عَلَى الْبَارِقَةِ فِي بَطْنِ الْوَادِي، فَقَالَ: فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ لَقِينَاهُمْ، قَالَ: فَلَمْ يُسْرِفْ مِنَ الْقَوْمِ أَحَدٌ إِلَّا أَنَامُوهُ، قَالَ: وَفُتِحَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَجَاءَتِ الْأَنْصَارُ فَأَحَاطُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الصَّفَا فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُبِيدَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ" لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ دَخَلَ دَارَهُ فَهُوَ آمِنٌ، مَنْ أَلْقَى سِلَاحَهُ فَهُوَ آمِنٌ، مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ))، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: أَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَحْمَةٌ فِي قَوْمِهِ وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، وَنَزَلَ الْوَحْيُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ قَالَ: ((يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَقُلْتُمْ أَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَدْرَكَتُهُ رَحْمَةٌ فِي قَوْمِهِ وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، فَمَا اسْمِي إِذًا، أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، هَاجَرْتُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَيْكُمْ، فَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ، وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ))، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا قُلْنَا ذَلِكَ إِلَّا ضَنًّا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ، قَالَ: ((فَإِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ وَيَعْذِرَانِكُمْ)).
عبداللہ بن رباح نے بیان کیا، ہم سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ساتھ موجود تھے، ہم میں سے ایک شخص روزانہ کھانے کا انتظام کرتا تھا، جس دن میری باری تھی تو وہ میرے ہاں اکٹھے ہو گئے لیکن کھانا ابھی تیار نہ تھا، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”ابوہریرہ! انصار کو میرے پاس بلاؤ۔“ میں نے انہیں بلایا تو وہ دوڑتے ہوئے آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”انصار کی جماعت! کیا تم قریش کے بکھرے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہے ہو، جب کل تمہاری ان سے مڈبھیڑ ہو تو انہیں کاٹ کر رکھ دینا۔ حماد (راوی) نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر اشارہ کر کے فرمایا کہ (ایسے کاٹ دینا) پھر تم نے صفا (پہاڑی) پر مجھ سے ملنا ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو میمنہ (دائیں جانب کے حصہ) پر، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو میسرہ پر اور ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو پیادہ لشکر پر وادی کے بطن میں مامور فرمایا۔ راوی نے بیان کیا: جب کل کا دن آیا تو ہماری ان سے مڈبھیڑ ہوئی، پس ان میں سے جو بھی نظر آیا ہم نے اسے (موت کی نیند) سلا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کر لیا اور صفا پہاڑی پر چڑھ گئے، انصار آئے تو انہوں نے صفا کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیرے میں لے لیا، ابوسفیان آئے تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قریش کی بڑی بڑی جماعتیں ختم ہو گئیں، آج کے بعد قریش باقی نہیں رہیں گے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اپنے گھر میں داخل ہو جائے اسے پناہ ہے، جو ہتھیار ڈال دے اسے پناہ ہے، جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اسے بھی امن ہے اور جو کوئی اپنا دروازہ بند کر لے اسے بھی پناہ حاصل ہے۔“ انصار نے کہا: رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو انہیں اپنی قوم پر ترس آ گیا ہے اور اپنی بستی کے متعلق رغبت اور شوق پیدا ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی، جب وہ کیفیت ختم ہوئی تو فرمایا: ”انصار کی جماعت! کیا تم نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم پر ترس آ گیا اور اپنی بستی کے متعلق رغبت اور شوق پیدا ہو گیا ہے، تب میرا نام کیا ہے؟ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، میں نے اللہ کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی، میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے۔“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے تو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خاص تعلق کی وجہ سے ایسی بات کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الجهاد واليسر، باب فتح مكه، رقم: 1780. مسند احمد: 292/2.»