اخبرنا ابو عامر العقدی، نا رباح۔ وهو ابن ابی معروف المکی، عن عطاء بن ابی رباح، عن ابن عباس ان رسول اللٰه، امر ضباعة ان حجی، واشترطی ان محلی حیث تحبسنی.اَخْبَرَنَا اَبُوْ عَامِرِ الْعَقَدِیِّ، نَا رِبَاحٌ۔ وَهُوَ ابْنُ اَبِیْ مَعْرُوْفِ الْمَکِّیِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ اَبِیْ رِبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ، اَمَرَ ضُبَاعَةَ اَنْ حَجِّی، وَاشْتَرِطِیْ اَنَّ مَحِلِّیْ حَیْثُ تَحْبِسُنِیْ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضباعہ رضی اللہ عنہا کو اجازت دی کہ وہ حج کریں اور یہ شرط لگا لیں کہ (اے اللہ!) تو مجھے جہاں روک لے گا، میں وہیں احرام کھول لوں گی۔
تخریج الحدیث: «السابق»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 331 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 331
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا اگر کوئی آدمی بیمار ہو اور بیماری بڑھنے کا خدشہ ہو یا راستے میں رکاوٹ پیش آجانے کا خدشہ ہو تو وہ مشروط احرام باندھ سکتا ہے۔ اور اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ اگر احرام کھولنا پڑ گیا تو اس پر کوئی فدیہ لازم نہیں ہوگا۔ لیکن اگر شرط نہیں لگائی اور کسی وجہ سے احرام کھول دیا تو اس پر لازم ہے کہ قربانی کا جانور خرید کر کسی دوسرے کے ہاتھ مکہ روانہ کرے اور جب قربانی کے ذبح ہونے کا وقت ہوجائے تو احرام کھول دے۔ اگر قربانی بھیجنا ممکن نہ ہو تو رکاوٹ کی جگہ پر ہی قربانی ذبح کر دے اور حجامت بنوا کر احرام کھول دے۔ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور امام مالک رحمہ اللہ کا یہی فتویٰ ہے کہ رکاوٹ والی جگہ پر ہی قربانی ذبح کی جاسکتی ہے۔ دلیل یہ ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیبیہ کے موقع پر روک دیے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں قربانی ذبح کی اور احرام کھول دیا۔ (دیکھئے تفصیل کے لیے بخاری قبل الحدیث: 1813) سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ موقف ہے کہ اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو 10 روزے رکھ لیں۔ (بخاري، کتاب العمرة، رقم: 1810)