اخبرنا النضر بن شميل، نا هشام، عن حفصة، عن ام عطية قالت:" فيما اخذ علينا في البيعة ان لا ننوح فما وفت منا امراة غير خمس، منهن: ام سليم، وامراة معاذ بن ابي سبرة او امراة معاذ , وابنة ابي سبرة، وامراة اخرى، وكانت لا تعد نفسها لانها لما كان يوم الحرة لم تزل النساء بها حتى قامت، فكانت لا تعد نفسها لذلك".أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، نا هِشَامٌ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ:" فِيمَا أُخِذَ عَلَيْنَا فِي الْبَيْعَةِ أَنْ لَا نَنُوحَ فَمَا وَفَتْ مِنَّا امْرَأَةٌ غَيْرَ خَمْسٍ، مِنْهُنَّ: أُمِّ سُلَيْمٍ، وَامْرَأَةِ مُعَاذِ بْنِ أَبِي سَبْرَةَ أَوِ امْرَأَةِ مُعَاذِ , وَابْنَةِ أَبِي سَبْرَةَ، وَامْرَأَةٍ أُخْرَى، وَكَانَتْ لَا تَعُدُّ نَفْسَهَا لِأَنَّهَا لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْحَرَّةِ لَمْ تَزَلِ النِّسَاءُ بِهَا حَتَّى قَامَتْ، فَكَانَتْ لَا تَعُدُّ نَفْسَهَا لِذَلِكَ".
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم سے جو بیعت لی گئی تھی، اس میں یہ بھی تھا کہ ہم نوحہ نہیں کریں گی، ہم میں سے صرف پانچ خواتین نے اسے پورا کیا: ام سلیم، معاذ بن ابی سبرۃ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ، یا معاذ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ، ابوسبرہ کی بیٹی اور ایک اور عورت، اور وہ اس کے لیے تیار نہ تھی حتیٰ کہ جب حرہ کا دن تھا تو خواتین اس میں شریک رہیں حتیٰ کہ وہ کھڑی ہو گئی، وہ اپنے آپ کو اس کے لیے تیار نہ کرتی تھیں۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الاحكام، باب بيعة النساء، رقم: 7215. مسلم، كتاب الجنائز، باب التشديد فى الباحة، رقم: 936. مسند احمد: 408/6، 85/5.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 265 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 265
فوائد: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے زبانی کلامی بیعت لیتے تھے، امیمہ بنت اقیقہؓ کی لمبی حدیث میں ہے.... ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول اجازت دیں ہم آپ کے ہاتھ مبارک پر بیعت کریں تو آپ ؐ نے فرمایا: میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔“(نسائی، کتاب البیعة، باب بیعة النساء:4183) وہ پانچ عورتیں کون تھیں؟ ام سلیم، ام العلاء، ابی سبرہ کی بیٹی، معاذ کی بیوی اور ایک اور عورت تھی۔ معلوم ہوا کسی مصیبت وآفت کے وقت یا کسی کی وفات کے وقت رونا، پیٹنا، چیخنا، چلانا، گریبان پھاڑنا اور بال نوچنا وغیرہ ممنوع ہے۔ احادیث میں ایسا کام کرنے والوں کے لیے سخت وعید موجود ہے۔ لیکن اگر غم کی وجہ سے خود بخود آنسو بہہ نکلیں تو ان کی ممانعت نہیں۔ ممانعت صرف ایسے رونے کی ہے جس میں واویلا ہو۔ جیسا کہ حدیث میں ہے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی کی تدفین کے موقع پر حاضر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی ہیں۔ (بخاري، رقم: 1286۔ مسلم، رقم: 928)