اخبرنا وکیع، نا اسامة بن زید، قال: سألت (طاؤوسا)، عن السبحة فی السفر، والحسن بن مسلم بن یناق جالس، فقال الحسن: حدثنی طاؤوس عن ابن عباس قال: فرض رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم صلاة الحضر، وصلاة السفر، فکما یصلی قبلها وبعدها فی الحضر، قال: فکذلك یصلی قبلها وبعدها فی السفر.اَخْبَرَنَا وَکِیْعٌ، نَا اُسَامَةَ بْنُ زَیْدٍ، قَالَ: سَأَٔلْتُ (طَاؤُوْسًا)، عَنِ السَّبْحَةِ فِی السَّفَرِ، وَالْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ یَنَّاقَ جَالِسٌ، فَقَالَ الْحَسَنُ: حَدَّثَنِیْ طَاؤُوْسٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْحَضَرِ، وَصَلَاةَ السَّفَرِ، فَکَمَا یُصَلِّیْ قَبْلَهَا وَبَعْدَهَا فِیْ الْحَضَرِ، قَالَ: فَکَذَلِكَ یُصَلِّیْ قَبْلَهَا وَبَعْدَهَا فِی السَّفَرِ.
سیدنا اسامہ بن زید نے بیان کیا، میں نے طاؤس سے دوران سفر ذکر اور نفل نماز کے متعلق پوچھا: جبکہ حسن بن مسلم بن یناق بیٹھے ہوئے تھے۔ تو حسن نے کہا: طاؤس نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مجھے بیان کیا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرو سفر کی نماز فرض کی، جس طرح حضر میں اس سے پہلے اور اس کے بعد نماز پڑھی جاتی ہے، انہوں نے کہا: اسی طرح سفر میں اس سے پہلے اور اس کے بعد نماز پڑھی جائے گی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجه، كتاب اقامة الصلاة، باب التطوع فى السفر، رقم: 1072. مسند احمد: 232/1، قال شعيب الارناوط: اسناده حسن. سنن كبري بيهقي: 158/3.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 190 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 190
فوائد: حفص بن عاصم بن عمر رحمہ اللہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ”میں ایک سفر میں سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھا۔ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، ہم نماز سے فارغ ہوئے اور وہ بھی فارغ ہوئے، انہوں نے نظر اٹھائی تو کچھ لوگ نماز پڑھتے نظر آئے۔ فرمایا: یہ لوگ کیا کررہے ہیں؟ میں نے کہا: نفل پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: اگر مجھے نفلی نماز پڑھنی ہوتی تو میں اپنی فرض نماز ہی پوری کرلیتا۔ بھتیجے! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفروں میں رہا ہوں وفات تک۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں کبھی دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھی، پھر میں سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہم سفر رہا، تو انہوں نے دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھی۔ پھر میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہم سفر رہا، انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھی۔ پھر میں سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھی۔ ان سب کا اپنی وفات تک یہی عمل رہا۔“(مسلم، کتاب صلاة المسافرین، رقم: 689۔ سنن ابن ماجة، رقم: 1071) پہلی حدیث میں ہے: نماز سے پہلے اور فرض نماز کے بعد نفل پڑھنے جائز ہیں، دوسری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں پڑھتے تھے۔ تاہم سفر میں نفل پڑھنے کی رخصت ہے جو پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کے دوران سواری پر نفل ادا کرتے تھے۔ سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر خواہ اس کا رخ کسی طرف ہوتا (نفل) نماز پڑھتے تھے لیکن جب فرض نماز پڑھنا چاہتے تو سواری سے اتر جاتے اور قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے۔“(بخاري، کتاب الصلاة، رقم: 400)