وبهذا، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((من صلى صلاتنا واستقبل قبلتنا واكل ذبيحتنا وصام شهرنا، فذلك المسلم له ذمة الله وذمة رسوله)).وَبِهَذَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا وَصَامَ شَهْرَنَا، فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ)).
اسی سند سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہماری نماز (کی طرح نماز) پڑھی اور ہمارے قبلے کو قبلہ بنایا، ہمارا ذبیحہ کھایا، ہمارے ماہ (رمضان) کے روزے رکھے تو یہ شخص مسلمان ہے اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الصلاة، باب فضل استقبال القبلة، رقم: 391. سنن نسائي، رقم: 4997.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 176 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 176
فوائد: مذکورہ حدیث میں شہادتین کا تذکرہ نہیں ہے۔ چونکہ شہادتین نماز میں ہی داخل ہیں اور وہی آدمی نماز پڑھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتا ہو، اس لیے ان کو الگ سے ذکر نہیں کیا گیا، دوران نماز مسجد حرام اور کعبہ کی طرف رخ کرنے کی قید لگا کر اہل کتاب وغیرہ کی نمازوں کو غیر معتبر قرار دیا۔ جیسے کسی کا ذبح شدہ جانور کھانے سے توقف کرنے کا تعلق عادات سے ہے اسی طرح یہ عبادات میں سے بھی ہے۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ زکوٰۃ اور حج کا تذکرہ کیوں نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ہر کسی پر فرض نہیں ہوتے، اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ سے مراد اسلام کی وجہ سے مسلمانوں کو نصیب ہونے والی برکات ہیں: مثلاً جان کی ضمانت، مال کی ضمانت، عزت کا تحفظ وغیرہ۔