اخبرنا المخزومي، نا عبد الواحد، نا يزيد، وهو ابن كيسان، قال: سمعت ابا حازم، يقول: سمعت ابا هريرة، يقول: عرسنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فلم يستيقظ حتى إذا ناجز الشمس فاستيقظنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((لياخذ كل منكم براس راحلته، عن هذا الموضع الذي اصابكم فيه ما اصابكم))، قال: فتنحينا، عن ذلك المكان، ثم دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بماء فتوضا به، ثم صلى هو واصحابه سجدتين، ثم اقام فصلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الغداة بعدما ارتفع النهار.أَخْبَرَنَا الْمَخْزُومِيُّ، نا عَبْدُ الْوَاحِدِ، نا يَزِيدُ، وَهُوَ ابْنُ كَيْسَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: عَرَّسْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ حَتَّى إِذَا نَاجَزَ الشَّمْسَ فَاسْتَيْقَظْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لِيَأَخُذْ كُلٌّ مِنْكُمْ بِرَأْسِ رَاحِلَتِهِ، عَنْ هَذَا الْمَوْضِعِ الَّذِي أَصَابَكُمْ فِيهِ مَا أَصَابَكُمْ))، قَالَ: فَتَنَحَّيْنَا، عَنْ ذَلِكَ الْمَكَانِ، ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ بِهِ، ثُمَّ صَلَّى هُوَ وَأَصْحَابُهُ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْغَدَاةِ بَعْدَمَا ارْتَفَعَ النَّهَارُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آرام کی غرض سے قیام کیا، پس ہم سوئے رہے حتیٰ کہ سورج کی تپش محسوس ہوئی تو ہم بیدار ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک اپنی سواری کو اس جگہ سے ہٹائے کہ اس جگہ تم جس مسئلے کا شکار ہوئے ہو، جو تمہیں معلوم ہی ہے۔“ راوی نے بیان کیا: پس ہم اس سے ہٹ گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر وضوء کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر اقامت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن چڑھنے کے بعد ہمیں فجر کی نماز پڑھائی۔
تخریج الحدیث: «راوي نے بيان كيا: پس هم اس سے هٹ جگه، پهر رسول الله صلى الله عليه وسلم نے پاني منگوا كر وضو كيا، پهر آپؑ اور آپؑ كے صحابه كرام رضى الله عنه نے دو ركعتيں پڑهيں، پهر اقامت هوئي تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے دن چڑهنے كے بعد هميں فجر كي نماز پڑهائي.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 145 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 145
فوائد: صحیح مسلم میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ خیبر سے واپس لوٹ رہے تھے تو ایک رات، رات بھر چلتے رہے حتیٰ کہ جب نیند آنے لگی تو آپ آرام کے لیے اتر گئے اور بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”آج رات ہمارا پہرہ دینا۔“ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر بلال رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بھی ان پر غالب آگئیں۔ (یعنی سو گئے) اور وہ اپنے اونٹ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ چنانچہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم جاگے نہ بلال اور نہ کوئی اور صحابی حتیٰ کہ جب انہیں دھوپ لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے جاگنے والے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے اور فرمایا: اے بلال! انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے بھی اسی چیز نے پکڑ لیا جس نے آپ کو پکڑا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان، پھر وہاں سے چل دئیے (اور کچھ دور جا کر اترے) تب آپ نے وضو کیا اور بلال کو حکم دیا تو انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی اور آپ نے انہیں فجر کی نماز پڑھائی۔ (مسلم، کتاب المساجد، رقم: 680) معلوم ہوا اگر آدمی نماز کے وقت سے سویا رہ جائے تو جب اٹھے اس وقت نماز ادا کرلے، تاخیر کا کوئی گناہ نہیں ہوگا، جبکہ ایسا عملاً نہ ہو۔ ایک دوسری حدیث میں ہے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا اگر کوئی شخص نماز پڑھنا بھول جائے یا سو جائے (تو کیا کرے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب یاد آئے اسی وقت نماز پڑھ لے۔“(مسلم، کتاب المساجد، رقم: 684)