اخبرنا المعتمر بن سليمان، حدثني ابي، عن بركة، عن بشير بن نهيك، عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرفع يديه في الدعاء حتى يرى إبطاه، قال ابي: ارى ذلك في الاستسقاء.أَخْبَرَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ بَرَكَةَ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الدَّعَاءِ حَتَّى يُرَى إِبِطَاهُ، قَالَ أَبِي: أَرَى ذَلِكَ فِي الِاسْتِسْقَاءِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے وقت (اس قدر) ہاتھ اٹھایا کرتے تھے حتیٰ کہ آپ کی بغلیں نظر آ جاتی تھیں، انہوں نے کہا: میرا خیال ہے کہ یہ استسقاء میں تھا۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب استسقاء، باب رفع الامام يده فى الاستسقاء، رقم: 1031. مسلم، كتاب صلاة الاستقا، باب رفع اليدين بالدعاء، الخ، رقم: 895. سنن نسائي، رقم: 1513. مسند احمد: 181/3. سنن دارمي، رقم: 1535»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 138 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 138
فوائد: دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ استسقاء کے وقت زیادہ ہاتھ اٹھاتے تھے۔ (بخاری: 3565۔ مسلم: 996) استسقاء کا مطلب ہے، پانی طلب کرنا جس وقت بارش کی ضرورت ہو اور بارش نہ آئے تو ایسے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعائیں کرتے اور باجماعت دو رکعت نماز پڑھتے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی دعا میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے مگر بارش کی دعا کرتے وقت ہاتھ (اس قدر) بلند کرتے تھے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آجاتی۔ (بخاري، رقم: 1031۔ سنن ابن ماجہ، رقم: 1180) اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ باقی دعاؤں کے لیے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، مطلب یہ ہے کہ بارش کی دعا میں زیادہ بلند ہاتھ کرتے تھے جبکہ دوسری دعاؤں میں کم بلند کرتے تھے۔ جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مبالغہ سے ہاتھ اٹھانا مراد ہے یعنی استسقاء کے علاوہ مقامات پر اتنے زیادہ ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ (شرح مسلم للنووی: 1؍ 293)