وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ما يزال الرجل يسال الناس، حتى ياتي يوم القيامة، وليس في وجهه مزعة لحم» .متفق عليه.وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ما يزال الرجل يسأل الناس، حتى يأتي يوم القيامة، وليس في وجهه مزعة لحم» .متفق عليه.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو لوگ گداگری اور بھیک مانگنے کو پیشہ ہی بنا لیتے ہیں قیامت کے روز ایسی حالت میں آئیں گے کہ ان کے چہرے پر گوشت نہیں ہو گا۔“(بخاری و مسلم)
हज़रत अब्दुल्लाह बिन उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जो लोग भीक मांगने को पेशा ही बना लेते हैं क़यामत के दिन ऐसी हालत में आएंगे कि उन के चहरे पर मांस नहीं होगा ।” (बुख़ारी और मुस्लिम)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الزكاة، باب من سأل الناس تكثرًا، حديث:1474، ومسلم، الزكاة، باب كراهة المسألة للناس، حديث:1040.»
Ibn ’Umar (RAA) narrated that The Messenger of Allah (ﷺ) said:
“A man who persists in begging people to give him charity, will come on the Day of Judgment and there will not be a piece of flesh on his face.” Agreed upon.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 516
لغوی تشریح 516: مُضْغَۃٌ اور ایک نسخہ میں مُزعَۃٌ بھی ہے۔ دونوں میں پہلے حرف پر ضمہ ہے اور دوسرا حرف ساکن ہے، اس کے معنی ٹکڑے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے آدمی کی قیامت کے روز قدر و منزلت اور عزت ووجاہت نہیں ہو گی اور وہ ذلت وخواری اور گھٹیا حالت کے ساتھ آئے گا۔ اور یہ بھی احتمال ہے کے اس کے معنی یہ ہوں کہ اس کے چہرے کو اتنا عذاب دیا جائے گا کہ چہرے کا گوشت تک اڑ جائے۔ یا اسے اٹھایا ہی اس حالت میں جائے گا کہ اس کا چہرہ صرف ہڈیوں کا خالی ڈھانچہ ہو گا تاکہ وہ اس کی پہچان کی علامت بنا رہے۔
فائدہ 516: اس حدیث سے گداگری کے پیشے کی مذمت معلوم ہورہی ہے۔ سوال کرنا اور مانگنا صرف تین قسم کے آدمیوں کے لیے جائز ہے۔ حضرت قبیصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قبیصہ! صرف تین اشخاص کے لیے سوال کرنا جائز ہے: ایک وہ شخص جسنے کوئی ضمانت اٹھالی (کسی شخص کے متعلق وعدہ کر لیا کہ میں اس کا ذمہ دار ہوں، اگر یہ فلاں وقت تک پیسے نہیں دے گا تو میں دے دوں گا، پھر وہ حسبِ وعدہ نہیں دیتا اور ضامن کو دینے پڑتے ہیں) تو اس ضامن کے لیے اس ادا کی جانے والی رقم کی حد تک سوال کرنا جائز ہے حتی کہ وہ اتنی رقم سوال کر کے حاصل کرے، پھر وہ سوال کرنے سے رک جائے۔ اور دوسرا وہ شخص کہ اسے کوئی آفت پہنچی جسنے اس کا سارا مال تباہ کر دیا، تو اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے پاس اتنی رقم ہو جائے کہ جس سے وہ اپنی گزران حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔ اور تیسرا وہ شخص کہ فقروفاقہ اسے گھیر لے، علاوہ ازیں اس کی قوم میں سے تین عقلمند آدمی اس کے معاملے کو لے کر کھڑے ہوں اور وہ کہیں کہ فلاں شخص فقروفاقے کی حالت میں مبتلا ہے، تو اس کے لیے بھی سوال کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے پاس اتنی رقم ہو جائے کہ جس سے وہ اپنی گزران حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔ اے قبیصہ! ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے سوال کرنے کو میں حرام سمجھتا ہوں۔ وہ سوال کر کے جو کچھ حاصل کرے گا، وہ حرام مال کھاے گا۔“[صحيح مسلم، الزكاة، باب من تحل له المسألة للناس، حديث: 1044] بنaبریں ہر سوال کرنے والے کو سوچ لینا چاہیے کہ وہ ان تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت کی ذیل میں آتا ہے؟ اگر آتا ہے تو یقینًا اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے، بصورتِ دیگر اس کے لیے سوال کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ واللہ اعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 516