الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
نماز کے احکام
नमाज़ के नियम
10. باب صلاة الجماعة والإمامة
10. نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان
१०. “ जमाअत के साथ नमाज़ पढ़ना और इमामत के नियम ”
حدیث نمبر: 335
Save to word مکررات اعراب Hindi
وعن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏إذا سمعتم الإقامة فامشوا إلى الصلاة وعليكم السكينة والوقار ولا تسرعوا فما ادركتم فصلوا وما فاتكم فاتموا» .‏‏‏‏ متفق عليه واللفظ للبخاري.وعن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏إذا سمعتم الإقامة فامشوا إلى الصلاة وعليكم السكينة والوقار ولا تسرعوا فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا» .‏‏‏‏ متفق عليه واللفظ للبخاري.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم نماز کی اقامت سنو تو نماز کی طرف اطمینان و سکون اور وقار کے ساتھ چل کر آؤ۔ جلدی اور عجلت مت کرو۔ جتنی نماز جماعت کے ساتھ پا لو اتنی پڑھ لو اور جو باقی رہ جائے اسے (بعد میں) پورا کر لو۔ (بخاری و مسلم) متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔
हज़रत अबु हुरैरा रज़िअल्लाहुअन्ह ने नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से रिवायत किया है कि आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया “जब तुम नमाज़ की इक़ामत सुनो तो नमाज़ की तरफ़ तसल्ली और सुकून और गरिमा के साथ चल कर आओ । जल्दी और हड़बड़ी मत करो । जितनी नमाज़ जमाअत के साथ पालो उतनी पढ़ लो और जो बाक़ी रह जाए उसे (बाद में) पूरा कर लो ।” (बुख़ारी और मुस्लिम) हदीस के शब्द बुख़ारी के हैं ।

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب لا يسعي إلي الصلاة....، حديث:636، ومسلم، المساجد، باب استحباب إتيان الصلاة بوقار سكينة، حديث:602.»

Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said: "If you hear the Iqamah, you must walk to the prayer (place) with tranquility and dignity, and do not hasten; and whatever portion of the prayer you get (along with the Imam) offer it, and complete afterwards whatever you missed. [Agreed upon, and the wording is al-Bukhari's).
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: صحيح

   صحيح البخاري908عبد الرحمن بن صخرإذا أقيمت الصلاة فلا تأتوها تسعون وأتوها تمشون عليكم السكينة فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا
   صحيح البخاري636عبد الرحمن بن صخرإذا سمعتم الإقامة فامشوا إلى الصلاة وعليكم بالسكينة والوقار ولا تسرعوا ما أدركتم فصلوا ما فاتكم فأتموا
   صحيح مسلم1360عبد الرحمن بن صخرإذا ثوب للصلاة فلا تأتوها وأنتم تسعون وأتوها وعليكم السكينة فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا فإن أحدكم إذا كان يعمد إلى الصلاة فهو في صلاة
   صحيح مسلم1362عبد الرحمن بن صخرإذا ثوب بالصلاة فلا يسع إليها أحدكم ولكن ليمش وعليه السكينة والوقار صل ما أدركت واقض ما سبقك
   صحيح مسلم1361عبد الرحمن بن صخرإذا نودي بالصلاة فأتوها وأنتم تمشون وعليكم السكينة ما أدركتم فصلوا ما فاتكم فأتموا
   صحيح مسلم1359عبد الرحمن بن صخرإذا أقيمت الصلاة فلا تأتوها تسعون وأتوها تمشون وعليكم السكينة فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا
   جامع الترمذي327عبد الرحمن بن صخرإذا أقيمت الصلاة فلا تأتوها وأنتم تسعون ولكن ائتوها وأنتم تمشون وعليكم السكينة فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا
   سنن أبي داود572عبد الرحمن بن صخرإذا أقيمت الصلاة فلا تأتوها تسعون وأتوها تمشون وعليكم السكينة فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا
   سنن أبي داود573عبد الرحمن بن صخرائتوا الصلاة وعليكم السكينة فصلوا ما أدركتم واقضوا ما سبقكم
   سنن النسائى الصغرى862عبد الرحمن بن صخرإذا أتيتم الصلاة فلا تأتوها وأنتم تسعون وأتوها تمشون وعليكم السكينة فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فاقضوا
   سنن ابن ماجه775عبد الرحمن بن صخرإذا أقيمت الصلاة فلا تأتوها وأنتم تسعون وأتوها تمشون وعليكم السكينة فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا
   بلوغ المرام335عبد الرحمن بن صخر إذا سمعتم الإقامة فامشوا إلى الصلاة وعليكم السكينة والوقار ولا تسرعوا فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا
   مسندالحميدي964عبد الرحمن بن صخرإذا أتيتم الصلاة فلا تأتوها وأنتم تسعون، وإيتوها وأنتم تمشون وعليكم السكينة، فما أدركتم فصلوا، وما فاتكم فاقضوا
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 335 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 335  
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب لا يسعي إلي الصلاة....، حديث:636، ومسلم، المساجد، باب استحباب إتيان الصلاة بوقار سكينة، حديث:602.»
تشریح:
اس حدیث کی رو سے نمازی جب مسجد میں نماز باجماعت کے لیے آئے تو بڑے آرام و سکون اور وقار و عزت کے ساتھ آئے۔
دوڑتا ہوا نہ آئے۔
چلتے ہوئے نگاہیں نیچی رکھے۔
بولنے کی ضرورت ہو تو دھیمی اور پست آواز سے بولے۔
یوں اطمینان سے آنے کے بعد امام کو جس حالت میں پائے، نماز میں شریک ہو جائے اور باقی نماز کو بعد میں کھڑا ہو کر پورا کر لے۔
ایسی صورت میں مقتدی نے جو نماز امام کے ساتھ پڑھی وہ اس نمازی کی پہلی رکعتیں شمار ہوں گی یا پچھلی؟ اس میں ائمہ کا اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس مقتدی کی پچھلی رکعتیں شمار ہوں گی جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مقتدی کی یہ پہلی رکعتیں شمار ہوں گی۔
یہی بات حدیث کے الفاظ فَأَتِمُّوا کے موافق ہے‘ نیز یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے کہ رکوع میں شامل ہونے والے کی یہ رکعت شمار ہوگی یا نہیں؟ محتاط ترین اور قرین صواب بات یہ ہے کہ رکعت نہیں ہوگی کیونکہ رکوع میں شامل ہونے کی صورت میں سورۂ فاتحہ اور قیام کی ادائیگی نہیں ہو پاتی‘ یہ دونوں رکن نماز ہیں۔
ان کے فقدان سے نماز کیسے ہوگی؟
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 335   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 572  
´نماز کے لیے دوڑ کر آنے کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب نماز کی تکبیر کہہ دی جائے تو نماز کے لیے دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ اطمینان و سکون کے ساتھ چلتے ہوئے آؤ، تو اب جتنی پاؤ اسے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: زبیدی، ابن ابی ذئب، ابراہیم بن سعد، معمر اور شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے اسی طرح: «وما فاتكم فأتموا» کے الفاظ روایت کئے ہیں، اور ابن عیینہ نے تنہا زہری سے لفظ: «فاقضوا» روایت کی ہے۔ محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، اور جعفر بن ربیعہ نے اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے لفظ: «فأتموا» سے روایت کی ہے، اور اسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اور انس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور ان سب نے: «فأتموا» کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 572]
572. اردو حاشیہ:
➊ لفظ  «فاتموا»  مکمل کرو سے استدلال یہ ہے کہ «مسبوق» جسے پوری جماعت نہ ملی ہو جہاں سے اپنی نماز شروع کرتا ہے وہ اس کی ابتداء ہوتی ہے۔ اور بعد از جماعت کی نماز اس کا آخر۔ امام ابوداؤد نے دلائل دیئے ہیں۔ کہ اکثر رواۃ  «فاتموا»  کا لفظ بیان کرتے ہیں، مگر کچھ حضرات کہتے ہیں کہ  «فاقضوا»  قضا دو کا مفہوم یہ ہے کہ مسبوق امام کے ساتھ جو پڑھتا ہے۔ وہ اس کی نماز کا آخری حصہ ہوتا ہے۔ جیسے کے امام کی نماز کا لہٰذا اٹھ کر اسے فوت شدہ نماز کی قضا کی نیت کرنی چاہیے۔ لیکن یہ لفظ شاذ ہے، جیسے کہ اس کی بابت شیخ البانی کی صراحت آگے آ رہی ہے۔ اس لئے راحج ہے کہ جہاں سے شروع کرے گا۔ وہ اس کی ابتداء ہو گی اور لفظ  «فاقضوا»  میں قضا ہمیشہ فوت شدہ کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ بلکہ ادا کرنے، پورا کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ مثلاً  «فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ»  جب نماز پوری ہو جائے اور  «فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ»  جب تم اپنے مناسک حج پورے کر لو۔ اسی طرح  «فاتموا»  اور  «فاقضوا»  میں تعارض نہیں رہتا۔  [عون المعبود]
➋ سورہ جمعہ کی آیت کریمہ بظاہر اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ کر آنے کا حکم ہے۔ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ»  اور حدیث مذکورہ بالا میں سعی (دوڑنا) منع ہے تو اس میں تعارض کا حل یہ ہے کہ دراصل آیت کریمہ میں حکم یہ ہے کہ اپنے مشاغل دنیوی یا غفلت اور کسل مندی و سستی کو ترک کر کے جمعہ کے لئے جلدی کرو۔ گویا آیت میں سعیٰ دوڑ کر آنے کا مطلب فوراً دنیوی مشاغل ترک کر کے مسجد میں پہنچنا ہے۔ اور حدیث میں مسجد کی طرف آنے کا ادب بتایا گیا ہے کہ دوڑنے کی بجائے، باوقار چال سے چل کر آؤ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 572   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 862  
´نماز کے لیے دوڑ کر جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز کے لیے آؤ تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ چلتے ہوئے آؤ، اور تم پر (وقار) سکینت طاری ہو، نماز جتنی پاؤ اسے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 862]
862 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز کی طرف دوڑ کر آنا سنجیدگی کے خلاف ہے، بے ادبی ہے، مسجد کی حرمت کے خلاف ہے۔ رب العالمین کے حضور حاضری معمولی بات نہیں۔ اس میں کامل سکون اور وقار چاہیے۔ عام معاملات میں بھی جلدبازی نامناسب ہے۔ اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے کیونکہ اس میں عام طور پر جانی اور مالی نقصان ہو جاتا ہے۔ عزت کا نقصان تو ہے ہی۔
➋ جو نماز امام کے ساتھ مل جائے، وہ اتبدائے نماز ہے یا امام والی؟ اس میں اختلاف ہے، یعنی مقتدی کی وہ کون سی رکعتیں شمار ہوں گی؟ پہلی شمار ہوں گی تو وہ بقیہ رکعتیں آخری رکعتوں کی طرح پڑھے گا اور اگر امام کی ترتیب کے حساب سے شمار ہوں گی تو بقیہ رکعتیں وہ ابتدائی رکعتوں کی طرح پڑھے گا۔ شوافع پہلی اور احناف دوسری بات کے قائل ہیں۔ دونوں طرف دلائل ہیں۔ اس حدیث کے آخری لفظ «فَاقْضُوا» امام شافعی رحمہ اللہ کے مؤید ہیں اور یہی راجح ہے۔ واللہ أعلم۔ نیز اکثر روایات میں «فأتِمُّوا» کے الفاظ وارد ہیں جس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ مقتدی جہاں سے آغاز کرے گا، وہی اس کی ابتدائے نماز ہو گی۔ جو رہ چکی ہو گی، بعد میں اس کی تکمیل کرے گا، لہٰذا بعض احادیث میں منقول الفاظ «فَاقْضُوا» کے معنیٰ بھی یہی ہوں گے، یعنی جو نماز رہ چکی ہو، اسے بعد میں ادا کر لیا جائے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرة العقبٰی، شرح سنن النسائي: 10؍355]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 862   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث775  
´نماز کے لیے چل کر مسجد جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ اطمینان سے چل کر آؤ، امام کے ساتھ جتنی نماز ملے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 775]
اردو حاشہ:
(1)
نماز باجماعت بہت ثواب والا عمل ہے اس کے حصول کی کوشش کرنا اچھی بات ہے لیکن اس مقصد کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ گھر سے بروقت روانہ ہوں۔
گھر سے روانہ ہوتے وقت دیر کردینا اور پھر نماز میں ملنے کے لیے بھاگنا درست نہیں۔

(2)
اطمینان سے چلنے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی اس قدر آہستہ چلے گویا اسے نماز باجماعت کی کوئی پرواہ نہیں۔
مقصد یہ ہے کہ وقار کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہو۔

(3)
بھاگ کر جماعت سے ملنے کے ممنوع ہونے میں یہ حکمت ہو سکتی ہے کہ نماز میں ملنے تک سانس نہ پھول جائے کیونکہ اس صورت میں نماز خشوع خضوع اور توجہ سے نہیں ادا کی جاسکے گی۔
واللہ اعلم
(4)
جو شخص نماز باجماعت میں اس وقت ملتا ہے جب امام ایک یا زیادہ رکعت ادا کرچکا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے بلکہ نماز پوری کرنے کے بعد سلام پھیرے۔
علمائے کرام کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جو رکعتیں امام کے سلام پھیرنے کے بعد پڑھی جائیں گی وہ نمازی کی آخری رکعتیں ہوں گی یا ابتدائی رکعتیں؟ اس حدیث میں مذکور الفاظ سے یہ سمجھا جا سکتا ہےکہ امام کے ساتھ پڑھی ہوئی رکعتیں مقتدی کی ابتدائی رکعتیں ہیں صحیح بخاری میں بھی (صحيح البخاري، الأذان باب لا يسعي إلي الصلاة وَلْيَأْتِهَا بالسكينة والوقار، حديث: 636)
صحیح مسلم میں بھی زیادہ روایات اسی طرح کی ہے البتہ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
(وَاقْضِ مَا سَبَقَكَ) (صحيح مسلم، المساجد، باب استحباب إِتيان الصلاة بوقار و سكينة۔
۔
۔
۔
۔
، حديث: 602)

اس سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ بعد میں پڑھی جانے والی رکعتیں اصل میں پہلی رکعتیں ہیں یعنی چھوٹی ہوئی رکعتوں کی قضاء ہے۔
علامہ محمد فواد عبد الباقی رحمہ اللہ  نے اس حدیث کے حاشہ میں فرمایا ہے:
یہاں قضاء سے مراد صرف فعل (ایک کام کو انجام دینا)
ہے وہ قضاء مراد نہیں جو فقہاء کی اصطلاح ہے جیسے کہ اس آیت مبارکہ میں ہے کہ (فَقَضٰهُنَّ سَبعَ سَمٰوٰت) (حم السجدة: 12) (الله تعالی نے انھیں سات آسمان بنا دیا)
اور اس آیت میں:
(فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ) (البقرة: 200)
 (جب تم اپنے اعمال حج پورے کرلو۔
۔
۔
۔)

اور اس آیت میں (فَإِذَاقُضِيَتِ الصَّلٰوةُ) (الجمعه: 10)
 (جب نماز پوری ہوجائے۔)
اور جیسے کہا جاتا ہے قَضَيْتُ حَقَّ فَلَانٍ میں نے فلاں کا حق ادا کردیا ان تمام مقامات پر قضاء سے مراد کوئی کام کرنا اور اسے انجام دینا ہے۔
حدیث کی مشہور کتاب بلوغ المرام کی شرح سبل السلام میں امام امیر صنعانی ؒ نے فرمایا:
اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ بعد میں آنے والاامام کے ساتھ جو نماز پڑھتا ہے وہ اس کی پہلی رکعتیں ہوتی ہیں یا آخری؟ صحیح بات یہ ہے کہ وہ پہلی ہی ہوتی ہیں۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 775   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:964  
964- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جب تم نماز کے لیے آؤ تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ چلتے ہوئے آؤ تم پر سکون لازم ہے جتنا حصہ تمہیں ملے اسے ادا کر لو اور جو گزر جائے اسے بعد میں ادا کرلو۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:964]
فائدہ:
مسجد کی طرف دوڑ کر آنا درست نہیں ہے، بلکہ اطمینان کے ساتھ آنا چاہیے، بعض لوگ طلباء پر نماز کے معاملے میں بہت زیادہ سختی کرتے ہیں، اس سختی کے ڈر سے طلباء کا دوڑ لگا کر آنا درست نہیں ہے، اور بعض کا سختی کے ڈر کی وجہ سے بے وضو نماز پڑھنا کبیرہ گناہ ہے، اس کا گناہ جہاں طلباء کو ہے، وہاں یہ غلط قانوں بنانے والی انتظامیہ اور ناجائزسختی کرنے والے اسا تذہ کو بھی ہوگا، تربیت کے اصول قرآن و حدیث کے موافق ہونے چاہئیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 963   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 908  
908. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو نماز کے لیے دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ اطمینان اور سکون سے چلتے ہوئے آؤ۔ وقار و طمانیت تم پر لازم ہے۔ نماز کا جو حصہ تمہیں مل جائے اسے پڑھو اور جو نہ ملے اسے پورا کر لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:908]
حدیث حاشیہ:
یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیونکہ جمعہ کی نماز بھی ایک نماز ہے اور اس کے لیے دوڑنا منع ہو کر معمولی چال سے چلنے کا حکم ہوا یہی ترجمہ باب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 908   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:636  
636. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: جب تم اقامت سنو تو نماز کے لیے سکون و وقار کے ساتھ چلو، تیزی اختیار نہ کرو، پھر جس قدر نماز مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے (بعد میں) پورا کر لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:636]
حدیث حاشیہ:
(1)
نماز کےلیے تیز دوڑ کر آنے والے کی دو صورتیں ہیں:
٭ایک یہ کہ نماز کے لیے اقامت ہوچکی ہو، نمازی اس لیے تیزی کرتا ہے کہ وہ جلدی نماز میں شامل ہوکر تکبیر اولیٰ کی فضیلت حاصل کرسکے، لیکن اس قسم کے اچھےجذبات رکھنے کے باوجود نماز کے لیے تیز دوڑ کر آنے سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ مذکوہ حدیث میں ہے۔
٭دوسری صورت یہ ہے کہ ابھی نماز کے لیے اقامت نہیں ہوئی، وہ یقینا تکبیر اولیٰ اور پہلی رکعت میں شامل ہوسکتا ہے، اس کے باوجود وہ نماز میں شمولیت کے لیے دوڑ کر آتا ہے، اس سے بھی منع کیا گیا، جیسا کہ حدیث ابی قتادۃ ؓ (635)
میں ہے، کیونکہ ایسا کرنا نماز کے وقار اور سکون کے خلاف ہے۔
بعض حضرات نے اس امتناعی حکم کی حکمت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ اقامت کے بعد تیز دوڑ کر نماز میں شامل ہونے والے کا سانس چڑھا ہو گا جو دوران نماز میں خشوع خضوع کے منافی ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے اس کی قراءت اور نماز سے متعلقہ دیگر احکام متاثر ہوسکتے ہیں۔
(2)
صحیح مسلم کی روایت میں اضافہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی نماز کا قصد کرتا ہے تو نماز ادا کرنے سے قبل ہی بحالت نماز شمار ہوتا ہے۔
اس بنا پر نمازی کو نماز سے پہلے بھی ایسے کاموں سے اجتناب کرنا ہوگا جو نماز کے منافی ہیں۔
آرام و سکون سے نماز کی طرف آنے کی وجہ سے اگر نماز کا کچھ حصہ بھی نہ پاسکا تو بھی نماز کے ثواب سے محروم نہیں ہوگا۔
نماز کے لیے پروقار طریقے سے آنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ آہستہ آہستہ چلنا بھی اس کے ثواب میں اضافے کا باعث ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے اسے نماز کےلیے زیادہ قدم اٹھانے ہوں گے اور ہر قدم کے بدلے درجات کا بلند ہونا حدیث سے ثابت ہے۔
(فتح الباري: 154/2) (3)
صلاۃ مسبوق (جس آدمی کی نماز کا کچھ حصہ فوت ہوجائے)
کی ترتیب کا مسئلہ بھی اس حدیث کے تحت آتا ہے، کیونکہ اس حدیث کو بیان کرنے والے اکثر راوی باقی ماندہ نماز پڑھنے کےلیے لفظ اتمام بیان کرتے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ امام کے ساتھ ادا کردہ نماز آخری حصہ ہے، اسے پہلے حصے کو پورا کرنا ہو گا۔
اس اختلاف کا نتیجہ اس صورت میں برآمد ہوگا کہ ایک آدمی امام کے ساتھ مغرب کی تیسری رکعت میں شامل ہوتا ہے، امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس نے باقی ماندہ دو رکعت ادا کرنی ہیں، اتمام والے (شوافع)
حضرات کے نزدیک اگرچہ امام کی آخری رکعت تھی، لیکن مسبوق کی پہلی رکعت مکمل ہے، اس لیے سلام کے بعد پہلی رکعت کے ساتھ ایک رکعت ملا کر تشہد بیٹھے گا، پھر تیسری رکعت پڑھ کر قعدۂ اخیرہ کرے گا اور سلام پھیرے گا۔
اس کے برعکس قضا والے (احناف)
حضرات کا موقف ہے کہ امام کے ساتھ اس کی آخری رکعت ادا ہوئی ہے، اب اس نے پہلی اور دوسری رکعت پڑھنی ہے، اس لیے وہ سلام کے بعد پہلی رکعت میں ثنا، تعوذ اور فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت بھی ملائے گا، اس طرح وہ دوسری رکعت پڑھ کر قعدۂ اخیرہ بیٹھے گا اور سلام پھیرے گا۔
ہمارے نزدیک پہلی صورت راجح ہے جس کے حسب ذیل دلائل ہیں:
٭حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ امام کے ساتھ جو نماز تم پا لو وہ تمھاری پہلی نماز ہے۔
(السنن الکبرٰی للبیهقي: 299/2)
٭اتمام کا حکم اس بات کا ثبوت ہے کہ امام کے ساتھ مسبوق نے جتنی نماز پڑھی تھی وہ اس کی ابتدائی نماز تھی۔
اور جن روایات میں لفظ قضا ہے وہ بھی اتمام کے معنی میں ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ﴾ پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ۔
(الجمعة 62: 10) (3)
اگر امام کے ساتھ پڑھی گئی نماز مسبوق کی آخری رکعت ہو تو اسے باقی ماندہ نماز کی آخری رکعت کے لیے تشہد پڑھنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ امام کے ساتھ اسے پڑھ چکا ہے، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، بلکہ تمام حضرات اسے امام کے ساتھ تشہد پڑھ لینے کے باوجود بھی آخری رکعت میں تشہد پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 636   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:908  
908. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو نماز کے لیے دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ اطمینان اور سکون سے چلتے ہوئے آؤ۔ وقار و طمانیت تم پر لازم ہے۔ نماز کا جو حصہ تمہیں مل جائے اسے پڑھو اور جو نہ ملے اسے پورا کر لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:908]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا اس حدیث کو بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ آیت کریمہ میں جمعہ کے لیے جس سعی کا ذکر ہے اس سے مراد وہ سعی نہیں جس کی حدیث مذکورہ میں ممانعت ہے کیونکہ آیت میں سعی سے مراد کوشش کر کے جانا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ سے اس کی تفسیر مروی ہے اور حدیث میں سعی سے مراد دوڑ کر آنا ہے جس کی شرعاً ممانعت ہے کیونکہ اس کے مقابلے میں لفظ مشي استعمال ہوا ہے جس کے معنی پیدل چلنا ہیں۔
(فتح الباري: 502/2)
اس کے علاوہ سعي إلی الصلاة اور سعي إلی الجمعة میں فرق بھی ہے۔
سعي إلی الصلاة اس لیے منع ہے کہ جب انسان نماز کے لیے دوڑ کر آئے گا تو ہانپتا ہوا نماز میں شامل ہو گا، ایسا کرنا نماز میں خضوع خشوع کے منافی ہے جبکہ سعي إلی الجمعة میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ جب جمعہ کے لیے سعی کر کے آئے گا تو اسے نماز سے پہلے کچھ وقت سستانے اور آرام کرنے کے لیے مل جائے گا اور نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہو گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز بھی نتیجے اور انجام کے لحاظ سے سکون و وقار کے منافی ہو گی وہ منع ہے اور جس سے سکون و وقار میں خلل پیدا نہیں ہو گا اس کے بجا لانے میں کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباري: 504/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 908   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.