الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
متفرق مضامین کی احادیث
विभिन्न विषयों के बारे में हदीसें
6. باب الذكر والدعاء
6. ذکر اور دعا کا بیان
६. “ अल्लाह को याद करने और दुआ करने के नियम ”
حدیث نمبر: 1354
Save to word مکررات اعراب Hindi
وعن ابي موسى الاشعري رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يدعو: «‏‏‏‏اللهم اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في امري وما انت اعلم به مني اللهم اغفر لي جدي وهزلي وخطئي وعمدي وكل ذلك عندي اللهم اغفر لي ما قدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت وما انت اعلم به مني انت المقدم وانت المؤخر وانت على كل شيء قدير» .‏‏‏‏ متفق عليه.وعن أبي موسى الأشعري رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يدعو: «‏‏‏‏اللهم اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري وما أنت أعلم به مني اللهم اغفر لي جدي وهزلي وخطئي وعمدي وكل ذلك عندي اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم وأنت المؤخر وأنت على كل شيء قدير» .‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے «اللهم اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري وما أنت أعلم به مني اللهم اغفر لي جدي وهزلي وخطئي وعمدي وكل ذلك عندي اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم وأنت المؤخر وأنت على كل شيء قدير» ‏‏‏‏ الٰہی! میری خطا معاف فرما دے۔ نیز میری نادانی و جہالت کے کاموں کو بخش دے۔ میرے کام میں مجھ سے جو زیادتیاں سرزد ہوئیں ان کو بھی اور جو کچھ میرے بارے میں تیرے علم میں ہے ان سب کو بھی معاف فرما دے۔ اے اللہ! مجھ سے ارادۃ یا غیر ارادی طور پر جو کچھ صادر ہوا اس کی مغفرت فرما دے۔ خواہ وہ میرے لغزش ہو یا ارادے سے ہو یہ سب میرے ہی جانب سے ہوا ہے۔ اے اللہ! جو کچھ میں کر چکا ہوں یا جو آئندہ کروں گا اور جو میرا پوشیدہ ہے یا جو مجھ سے ظاہر ہوا ہے اور جو کچھ بھی میرے متعلق تیرے علم میں ہے وہ سب بخش دے۔ تو ہی پہلے ہے اور تو ہی بعد میں اور تو ہی ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (بخاری و مسلم)
हज़रत अबु मूसा अशअरी रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम दुआ कहा करते थे « اللهم اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري وما أنت أعلم به مني اللهم اغفر لي جدي وهزلي وخطئي وعمدي وكل ذلك عندي اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم وأنت المؤخر وأنت على كل شيء قدير » ’’ इलाही ! मेरी भूल चूक क्षमा कर दे। और मेरी न समझी और जहालत के कामों को क्षमा करदे। मेरे काम में मुझ से जो ज़ियादती हो गई है उन को भी और जो कुछ मेरे बारे मैं तू जानता है उन सब को भी क्षमा कर दे। ऐ अल्लाह ! मुझ से जाने अनजाने में जो कुछ हुआ वह भी क्षमा कर दे। चाहे वह मेरी भूल चूक हो या जान बूझ कर किया हो ये सब मेरी ही ओर से हुआ है। ऐ अल्लाह ! जो कुछ मैं कर चूका हूँ या जो आगे से करूँ गा और जो मैं ने छुप कर किया है या जो मैं ने दिखा कर किया है और जो कुछ भी मेरे बारे में तू जानता है वह सब क्षमा दे। तू ही पहला है और तू ही अंतिम और तू ही हर चीज़ पर नियंत्रण रखने वाला है।” (बुख़ारी और मुस्लिम)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الدعوات، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم: ((اللّٰهم! اغفرلي...))، حديث:6398، ومسلم، الذكر والدعاء، باب التعوذ من شر ما عمل...، حديث:2719.»

Abu Musa al-Ash’ari (RAA) narrated, “The Messenger of Allah (ﷺ) used to supplicate, “O Allah, forgive me my faults, my ignorance, my immoderation in my concern. And you are better aware (of my affairs) than myself. O Allah, grant me forgiveness (of the faults which I committed) seriously or otherwise (and which I committed) inadvertently and deliberately. All these (failings) are in me. O Allah, grant me forgiveness from the faults, which I did in haste or deferred, which I committed in privacy or in public and you are better aware (of them) than myself. You are the First and the Last and over all things you are Omnipotent.” Agreed Upon.
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: صحيح

   صحيح البخاري6399عبد الله بن قيساللهم اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري وما أنت أعلم به مني اللهم اغفر لي هزلي وجدي وخطاياي وعمدي وكل ذلك عندي
   صحيح البخاري6398عبد الله بن قيسرب اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري كله وما أنت أعلم به مني اللهم اغفر لي خطاياي وعمدي وجهلي وهزلي وكل ذلك عندي اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت أنت المقدم وأنت المؤخر وأنت على كل شيء قدير
   صحيح مسلم6903عبد الله بن قيساللهم اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري وما أنت أعلم به مني اللهم اغفر لي جدي وهزلي وخطئي وعمدي وكل ذلك عندي اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم وأنت المؤخر وأنت على كل شيء قدير
   بلوغ المرام1354عبد الله بن قيس اللهم اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري وما أنت أعلم به مني اللهم اغفر لي جدي وهزلي وخطئي وعمدي وكل ذلك عندي اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم وأنت المؤخر وأنت على كل شيء قدير
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1354 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1354  
تخریج:
«أخرجه البخاري، الدعوات، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم: ((اللّٰهم! اغفرلي...))، حديث:6398، ومسلم، الذكر والدعاء، باب التعوذ من شر ما عمل...، حديث:2719.»
تشریح:
1.اس قسم کی جتنی دعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں یہ آپ نے امتثال امر کے لیے مانگی ہیں کیونکہ آپ تو معصوم عن الخطا تھے‘ یا امت کو تعلیم دینے کی غرض سے مانگی ہیں۔
2.بعض روایات میں ہے کہ یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشہد کے آخر میں پڑھتے اور بعض میں ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد۔
عین ممکن ہے کہ دونوں طرح آپ نے یہ دعا پڑھی ہو‘ کبھی سلام سے پہلے کبھی سلام کے بعد۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1354   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6903  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمایا کرتے تھے۔"اے اللہ! میری دینی حالت درست فرمادے جس پر میری خیریت اور میرے تمام امور کی سلامتی کا مدار ہے اور میری دنیا بھی درست فرمادے۔ جس میں مجھے اپنی زندگی گزارنا ہے اور میری آخرت درست فر دے جہاں مجھے لوٹ کر جانا ہے اور میری زندگی کو میرے لیے ہر خیراور بھلائی میں اضا فہ اور زیادتی کا ذریعہ بنا دے اور موت کو میرے لیے ہر شرومصیبت سے راحت اور حفاظت کا وسیلہ بنا دے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6903]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ ایک انتہائی جامع دعا ہے،
دراصل دین ہی وہ چیز ہے کہ اگر وہ درست و سلامت ہے تو اللہ کے غضب و ناراضی سے محفوظ ہوکر اس کے لطف و کرم کا مستحق قرار پاتا ہے اور اس کے جان و مال اور عزت و آبرو کو قانونی طور پر تحفظ دیتا ہے اور دین کی درستی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ایمان و یقین حاصل ہو،
اس کے عقائد نظریات اور افکارو جذبات صحیح ہوں،
اس کے اخلاق اور اعمال اور سیرت و کردار درست ہوں اور دنیا کی درستی کا مطلب یہ ہے کہ اس کے رزق اور معاش کی ضرورتیں حلال اور جائز راستوں سے پوری ہوں،
تاکہ اس کے دین کے اندر خلل اور خرابی درنہ آئے اور جب انسان کا دین اور دنیا دونوں درست ہوں گے تو اس کا لازمی نتیجہ آخرت جو اصل ٹھکانا اور دائمی زندگی ہے،
کی صلاح اور فلاح ہے،
لیکن دین و دنیا کی اچھی حالت کے باوجود،
انسان کو آخرت کے بارے میں مطمئن اور بے فکر نہیں ہونا چاہیے،
اس لیے اس کی صلاح و فلاح کا بھی خواستگار ہونا چاہیےاور ہر آدمی کو اس دنیا میں اپنی زندگی کا وقفہ پورا کر کے مرنا ہے اور اللہ کی دی ہوئی عمر سے آدمی نیک کمائی بھی کر سکتا ہے اور برائی و بدی بھی کما سکتا ہے،
یعنی وہ اس کی سعادت و خوش بختی میں اضافہ اور ترقی کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے اور شقاوت و بد بختی میں اضافہ اور زیادتی کا باعث بنی اور سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے،
اس لیے دین و دنیا اور آخرت کی صلاح فلاح کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ اے اللہ:
میری زندگی کو میرے لیے خیرو سعادت میں اضافہ اور ترقی کا سبب بنا اور میری موت کو شرور وفتن سے راحت اور آرام کا ذریعہ بنا،
اس طرح اس دعا میں دین و دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی کا سوال ہے اور ان کے ہر شر اور برائی سے تحفظ اور بچاؤ کی درخواست ہے اور یہ دعا دریا بکوزہ کی بہترین مثال ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6903   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6398  
6398. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! میری خطائیں میری نادانی اور تمام معاملات میں میرے حد سے تجاوز کو معاف کر دے۔ اور وہ گناہ بھی جنہیں تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے اے اللہ! میری خطائیں اور گناہ میں نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کیے ہیں نیز جو گناہ میں نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کیے ہیں۔ نیز وہ گناہ میں نے سنجیدگی میں کیے ہیں انہیں معاف کر دے۔ یہ سب میری ہی طرف سے ہیں اے اللہ! میرے گناہ بخش دے جو پہلے کر چکا ہوں یا آئندہ کروں گا اور جنہیں میں نے چھپایا ہے اور جنہیں میں نے علانیہ کیا ہے تو ہی سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے آخر میں ہے۔ اور تو ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے۔ عبید اللہ بن معاذ نے کہا: مجھے میرے باپ نے بیان کیا ہے، ان سے شعبہ نے ان سے ابو اسحاق نے ان سے ابو بردہ نے ان سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6398]
حدیث حاشیہ:
دعا کے آخر میں لفظ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ فرمانا اس چیز کا اظہار ہے کہ اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے یہی استغناء الٰہی تو وہ چیز ہے جس سے بڑے بڑے پیغمبر اورمقرب بندے بھی تھراتے ہیں اور رات دن بڑی عاجزی کے ساتھ اپنے قصوروں کا اقرار اور اعتراف کرتے رہتے ہیں اگر ذرا بھی انانیت کسی کے دل میں آئی تو پھر کہیں ٹھکانا نہ رہا۔
حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منبری رحمۃ اللہ علیہ اپنی مکاتیب میں فرماتے ہیں وہ پاک پروردگار ایسا مستغنی اور بے پرواہ ہے کہ اگر چاہے تو ہر روز حضرت ابراہیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح لاکھوں آدمیوں کو پیدا کر دے اور اگر چاہے تو دم بھر میں جتنے مقرب بندے ہیں ان سب کو راندئہ درگاہ بنا دے۔
جل جلالہ۔
یہاں مشیت کا ذکر ہو رہا ہے، مشیت اور چیز ہے اورقانون اورچیز ہے۔
قوانین الٰہی کے بارے میں صاف ارشاد ہے۔
﴿فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا﴾ (فاطر: 43)
صدق اللہ تبارك وتعالیٰ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6398   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6399  
6399. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ یہ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! میری خطائیں، میری نادانی کی باتیں، معاملات میں حد سے تجاوز کو معاف کر دے اور خطاؤں اور جو میں نے دانستہ گناہ کیے ہیں سب کو معاف کر دے۔ یہ سب کچھ میریہی طرف سے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6399]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''امید ہے کہ آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود پر فائز کرے۔
'' (بنی اسرائیل: 79)
نیز فرمایا:
''آپ کی آخرت، اس دنیا سے کہیں بلند مرتبہ ہو گی اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس قدر نوازے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔
'' (الضحیٰ 4-
5)

چونکہ دعا ایک عبادت بلکہ روح عبادت ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی دعائیں مانگی ہیں۔
پھر آپ نے اظہار عبادیت یا امت کو تعلیم دینے کے لیے مذکورہ دعائیں کی ہیں۔
یہ دعائیں اس بنا پر نہیں ہیں کہ واقعی آپ گناہ گار یا خطا کار تھے۔
بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے معصوم اور نافرمانی سے مبرا تھے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اس کی صراحت کی ہے۔
(الفتح: 9) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں دوران نماز میں سلام سے پہلے پڑھتے تھے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے بعد پڑھتے تھے۔
ان روایات کے پیش نظر اس امر کا قوی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام سے پہلے اور بعد دونوں مواقع پر یہ دعائیں پڑھتے ہوں۔
(فتح الباري: 236/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6399   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.