وعن عائشة رضي الله عنها قالت: اعتم النبي صلى الله عليه وآله وسلم ذات ليلة بالعشاء حتى ذهب عامة الليل ثم خرج فصلى وقال: «إنه لوقتها لولا ان اشق على امتي» رواه مسلم.وعن عائشة رضي الله عنها قالت: أعتم النبي صلى الله عليه وآله وسلم ذات ليلة بالعشاء حتى ذهب عامة الليل ثم خرج فصلى وقال: «إنه لوقتها لولا أن أشق على أمتي» رواه مسلم.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شب نماز عشاء تاخیر سے پڑھی کہ رات کا اول حصہ زیادہ تر گزر گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیلئے تشریف لائے اور نماز پڑھی اور فرمایا کہ ”اگر میری امت پر (یہ وقت) گراں نہ ہوتا تو میں نماز عشاء کا یہی وقت مقرر کرتا۔“(مسلم)
हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा रिवायत करती हैं कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने एक रात इशा की नमाज़ देर से पढ़ी कि रात का पहला भाग अधिक बीत गया था। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम नमाज़ के लिये तशरीफ़ लाए और नमाज़ पढ़ी और कहा कि “अगर मेरी उम्मत पर (ये समय) भारी न होता तो मैं इशा की नमाज़ का यही समय नियुक्त करता।” (मुस्लिम)
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساجد، باب وقت العشاء وتأخيرها، حديث:638.»
Narrated 'Aishah (RA):
The Prophet (ﷺ) delayed (the 'Isha' prayer) one night till a great part of the night passed, then he went out and offered the prayer, and said, "This is the proper time for it; were it not that I would impose a burden on my followers." [Reported by Muslim].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 132
� لغوی تشریح: «أَعتَمْ» تاخیر کی، دیر کی۔ یہ «إِعْتَام» سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں: اندھیرے کے وقت میں داخل ہونا۔ «اَلْعَتْمَة» شفق کے غائب ہونے کے بعد، رات کے ابتدائی ثلث (تیسرے حصے) کو کہتے ہیں، یا غروب شفق کے بعد مطلق تاریکی کو کہتے ہیں۔ اور ایک قول کے مطابق یہ «اَلْعَتْم» سے ماخوذ ہے جس کے معنی تاخیر کرنے اور دیر کرنے کے ہیں۔ «عَامَّةُ اللَّيْلِ» رات کا اکثر حصہ۔ «إِنَّهُ لَوَقْتُهَا» اس سے مختار اور افضل وقت مراد ہے۔
فائدہ: یہ حدیث اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نماز عشاء تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔ تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں افضلیت کا ثواب صرف اسی نماز کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی نماز کے ساتھ نہیں۔ پہلے گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کے لیے کبھی نمازیوں کی آمد کا انتظار بھی کر لیا کرتے تھے، اگر وہ دیر سے جمع ہوتے تو نماز میں بھی تاخیر فرما لیتے اور اگر نمازی جلد جمع ہو جاتے تو جلدی جماعت کرا دیتے۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کا خیال رکھتے، جو چیز افراد امت کے لیے مشقت اور دشواری کا باعث ہوتی اس میں آسانی کرنے کی کوشش فرماتے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 132