سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے ایک سفید براق لایا گیا، اور وہ ایک جانور ہے سفید رنگ کا، لمبا، گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا، اپنے سم وہاں رکھتا ہے جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے (تو ایک لمحہ میں آسمان تک جا سکتا ہے)۔ فرمایا: میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس تک آیا۔ فرمایا: وہاں میں نے اس جانور کو اس حلقہ سے باندھ دیا، جس سے اور پیغمبر اپنے اپنے جانوروں کو باندھا کرتے تھے (یہ حلقہ مسجد کے دروازے پر ہے اور باندھ دینے سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی چیزوں کی احتیاط اور حفاظت ضروری ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں) پھر میں مسجد کے اندر گیا اور دو رکعت نماز پڑھی پھر باہر نکلا تو جبرائیل علیہ السلام دو برتن لے کر آئے، ایک میں شراب اور دوسرے میں دودھ تھا۔ میں نے دودھ پسند کیا تو جبرائیل نے کہا، آپ نے فطرت کو پسند کیا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے آسمان پر لے کر گئے، (جب وہاں پہنچے) تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کیلئے کہا، انہوں نے پوچھا کون ہے؟ جبرائیل نے کہا کہ جبرائیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلائے گئے تھے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں۔ پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا اور میں نے آدم علیہ السلام کو دیکھا تو انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام ہمارے ساتھ دوسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ جبرائیل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون شخص ہے؟ انہوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ ان کو بلانے کا حکم ہوا تھا؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں حکم ہوا ہے۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں کو دیکھا یعنی عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو۔ ان دونوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا، تو فرشتوں نے کہا کہ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ جبرائیل۔ فرشتوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا ان کو بلانے کیلئے پیغام گیا تھا؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں پیغام گیا تھا۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا۔ اللہ نے حسن (خوبصورتی) کا آدھا حصہ ان کو دیا تھا۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور نیک دعا کی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام ہمیں لے کر چوتھے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا تو فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ جبرائیل۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کہ وہ بلوائے گئے ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ادریس علیہ السلام کو دیکھا۔ انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے اچھی دعا دی۔ اللہ جل جلالہ نے فرمایا ہے کہ ”ہم نے ادریس کو اونچی جگہ پر اٹھا لیا“(تو اونچی جگہ سے یہی چوتھا آسمان مراد ہے)۔ پھر جبرائیل علیہ السلام ہمارے ساتھ پانچویں آسمان پر چڑھے اور انہوں نے دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون؟ کہا کہ جبرائیل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ہارون علیہ السلام کو دیکھا۔ انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے نیک دعا دی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام ہمارے ساتھ چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ جبرائیل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ اللہ نے ان کو لے کر آنے کیلئے پیغام بھیجا تھا؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا، ہاں! بھیجا تھا۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے اچھی دعا دی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام ہمارے ساتھ ساتویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ جبرائیل ہوں۔ پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلوائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ بیت المعمور سے اپنی پیٹھ کا تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ (اس سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنا گناہ نہیں) اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں کہ پھر کبھی ان کی باری نہیں آئے گی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے سدرۃالمنتہیٰ کے پاس لے گئے۔ اس کے پتے اتنے بڑے تھے جیسے ہاتھی کے کان اور اس کے بیر قلہ جیسے۔ (ایک بڑا گھڑا جس میں دو مشک یا زیادہ پانی آتا ہے) پھر جب اس درخت کو اللہ تعالیٰ کے حکم نے ڈھانکا تو اس کا حال ایسا ہو گیا کہ کوئی مخلوق اس کی خوبصورتی بیان نہیں کر سکتی۔ پھر اللہ جل جلالہ نے میرے دل میں القاء کیا جو کچھ القاء کیا اور پچاس نمازیں رات اور دن میں مجھ پر فرض کیں۔ جب میں وہاں سے اترا اور موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ تمہارے پروردگار نے تمہاری امت پر کیا فرض کیا؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جاؤ اور تخفیف چاہو، کیونکہ تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی اور میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا اور ان کا امتحان لیا ہے۔ میں اپنے پروردگار کے پاس لوٹ گیا اور عرض کیا کہ اے پروردگار! میری امت پر تخفیف کر۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ میں لوٹ کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کر دیں۔ انہوں نے کہا تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی، تم پھر اپنے رب کے پاس جاؤ اور تخفیف کراؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس طرح برابر اپنے پروردگار کے درمیان آتا جاتا رہا، یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں، اور ہر ایک نماز میں دس نمازوں کا ثواب ہے۔ تو وہی پچاس نمازیں ہوئیں (سبحان اللہ! مالک کی اپنے بندوں پر کیسی عنایت ہے کہ پڑھیں تو پانچ نمازیں اور ثواب پچاس نمازوں کا ملے) اور جو کوئی شخص نیک کام کرنے کی نیت کرے اور پھر اس کو نہ کر سکے تو اس کو ایک نیکی کا ثواب ملے گا اور جو کرے تو اس کو دس نیکیوں کا اور جو شخص برائی کرنے کی نیت کرے اور پھر اس کو نہ کرے، تو کچھ نہ لکھا جائے گا اور اگر کر لے تو ایک ہی برائی لکھی جائے گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر اپنے رب کے پاس لوٹ جاؤ اور تخفیف چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنے رب کے پاس باربار گیا یہاں تک کہ میں اس سے شرما گیا ہوں۔ (یعنی اب جانے سے شرماتا ہوں)۔