سیدنا عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بحرین کی طرف وہاں کا جزیہ لینے کو بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور ان پر سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو حاکم مقرر کیا تھا۔ پھر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ وہ مال بحرین سے لے کر آئے۔ یہ خبر انصار کو پہنچی تو انہوں نے فجر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر پھرے تو انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر تبسم فرمایا اور فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تم نے سنا کہ ابوعبیدہ کے بحرین سے کچھ مال لے کر آنے کا سن لیا ہے؟ (اور تم اسی خیال سے آج جمع ہوئے کہ مال ملے گا) انہوں نے کہا کہ بیشک یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوش ہو جاؤ اور اس بات کی امید رکھو جس سے تم خوش ہوتے ہو۔ پس اللہ کی قسم! مجھے تم پر فقیری کا ڈر نہیں، لیکن مجھے اس کا ڈر ہے کہ دنیا تم پر کشادہ ہو جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ ہوئی تھی، پھر ایک دوسرے سے زیادہ شوق کرنے لگو جیسے اگلے لوگوں نے شوق کیا تھا اور وہ (شوق یا وہ دنیا) تمہیں ہلاک کر دے جیسے اس نے ان لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔