مختصر صحيح مسلم کل احادیث 2179 :حدیث نمبر

مختصر صحيح مسلم
فتنوں کا بیان
3. دلوں پر فتنوں کا پیش کیا جانا اور فتنوں کا دلوں میں داغ پیدا کر دینا۔
حدیث نمبر: 1990
Save to word مکررات اعراب
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے کہا: تم میں سے کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ بعض لوگوں نے کہا کہ ہاں! ہم نے سنا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شاید تم فتنوں سے وہ فتنے سمجھے ہو جو آدمی کو اس کے گھربار اور مال اور ہمسائے میں ہوتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان فتنوں کا کفارہ تو نماز، روزے اور زکوٰۃ سے ہو جاتا ہے، لیکن تم میں سے ان فتنوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس نے سنا ہے جو دریا کی موجوں کی طرح امڈ کر آئیں گے؟ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ خاموش ہو گئے میں نے کہا کہ میں نے سنا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تو نے سنا ہے تیرا باپ بہت اچھا تھا۔ (یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے جو عرب لوگ استعمال کرتے ہیں) سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ فتنے دلوں پر ایک کے بعد ایک، ایک کے بعد ایک ایسے آئیں گے جیسے بورئیے کی تیلیاں ایک کے بعد ایک ہوتی ہیں۔ پھر جس دل میں فتنہ رچ جائے گا، اس میں ایک کالا داغ پیدا ہو گا اور جو دل اس کو نہ مانے گا تو اس میں ایک سفید نورانی دھبہ ہو گا، یہاں تک کہ اسی طرح کالے اور سفید دھبے ہوتے ہوتے دو قسم کے دل ہو جائیں گے۔ ایک تو خالص سفید دل چکنے پتھر کی طرح کہ آسمان و زمین کے قائم رہنے تک اسے کوئی فتنہ نقصان نہ پہنچائے گا۔ دوسرے کالا سفیدی مائل یا الٹے کوزے کی طرح جو نہ کسی اچھی بات کو اچھی سمجھے گا نہ بری بات کو بری، مگر وہی جو اس کے دل میں بیٹھ جائے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ تمہارے اور اس فتنے کے درمیان میں ایک بند دروازہ ہے، مگر نزدیک ہے کہ وہ ٹوٹ جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیرا باپ نہ ہو (یہ بھی ایک کلمہ ہے جسے عرب عام طور پر کسی کام پر متنبہ کرنے یا مستعد کرنے کو کہتے ہیں)، کیا وہ ٹوٹ جائے گا؟ کھل جاتا تو شاید پھر بند ہو جاتا۔ میں نے کہا کہ نہیں ٹوٹ جائے گا اور میں نے ان سے حدیث بیان کی کہ یہ دروازہ ایک شخص ہے، جو مارا جائے گا یا مر جائے گا۔ پھر یہ حدیث کوئی غلط (دل سے بنائی ہوئی بات) نہ تھی۔ ابوخالد نے کہا کہ میں نے سعید بن طارق سے پوچھا کہ ((اسود مربادا)) سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا کہ سیاہی میں سفیدی کی شدت۔ میں نے کہا کہ ((کالکوز مجخیا)) سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا کہ اوندھا کیا ہوا کوزا۔


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.