سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں تشریف لائے تو فرمایا ”سلام ہے تم پر یہ گھر ہے مسلمانوں کا اور اللہ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ میری آرزو ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں“(اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک بات کی آرزو کرنا درست ہے جیسے علماء اور فضلاء سے ملنے کی) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بھائی نہیں ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم تو میرے اصحاب ہو اور بھائی ہمارے وہ لوگ ہیں جو ابھی دنیا میں نہیں آئے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو کیسے پہچانیں گے جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ہی نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھلا تم میں سے کسی کے سفید پیشانی، سفید ہاتھ پاؤں والے گھوڑے سیاہ مشکی گھوڑوں میں مل جائیں، تو وہ اپنے گھوڑے نہیں پہچانے گا؟ صحابہ نے عرض کیا کہ بیشک وہ تو پہچان لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن وضو کی وجہ سے میری امت کے لوگ سفید منہ اور سفید ہاتھ پاؤں رکھتے ہوں گے اور حوض کوثر پر میں ان کا پیش خیمہ ہوں گا۔ خبردار رہو کہ بعض لوگ میرے حوض پر سے ہٹائے جائیں گے جیسے بھٹکا ہوا اونٹ ہنکایا جاتا ہے۔ میں ان کو پکاروں گا آؤ آؤ۔ اس وقت کہا جائے گا کہ ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رد و بدل کر لیا تھا (یا ان کی حالت بدل گئی تھی، بدعت اور ظلم میں گرفتار ہو گئے تھے)۔ تب میں کہوں گا کہ جاؤ دور ہو جاؤ۔ جاؤ دور ہو جاؤ۔