سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی کام کے لیے بھیجا، چنانچہ میں گیا اور اس کام کو مکمل کر کے واپس ہوا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سلام کا جواب نہیں دیا تو میرے دل کو (اس قدر رنج) ہوا کہ جس کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے اس لیے ناراض ہو گئے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں تاخیر کر دی۔ میں نے پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا تو اب میرے دل میں پہلی مرتبہ سے بھی زیادہ (رنج) ہوا۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جواب دیا اور فرمایا: ”مجھے تمہارے سلام کا جواب دینے سے یہ امر مانع تھا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر تھے، قبلہ کی طرف منہ (بھی) نہ تھا۔“
हज़रत जाबिर बिन अब्दुल्लाह रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं कि मुझे रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने अपने किसी काम के लिए भेजा, इसलिए मैं गया और उस काम को पूरा करके लोटा तो मैं नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास आया और आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को सलाम किया। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने मुझे सलाम का जवाब नहीं दिया तो मेरे दिलको (इस हद तक रंज) हुआ कि जिसको अल्लाह ही अच्छे से जानता है। बस मैं ने अपने दिल में कहा कि शायद रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम मुझसे इसलिए नाराज़ होगए कि मैं ने आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास आने में देर करदी। मैं ने फिर दोबारा आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को सलाम किया और आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने जवाब नहीं दिया तो अब मेरे दिल में पहली दफ़ा से भी अधिक (रंज) हुआ। फिर मैं ने आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को सलाम किया तो आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने मुझे जवाब दिया और फ़रमाया ! “मुझे तुम्हारे सलाम का जवाब देने से यह हुक्म रोक रहा था कि मैं नमाज़ पढ़ रहा था।” और रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम अपनी सवारी पर थे, क़िब्ले की ओर मुंह (भी) न था।”