الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
155. بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ:
155. باب: نماز کے بعد ذکر الٰہی کرنا۔
(155) Chapter. The Dhikr remembering Allah by Glorifying, Praising and Magnifying Him) after As-Salat (the prayer).
حدیث نمبر: 844
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، قال: حدثنا سفيان، عن عبد الملك بن عمير، عن وراد كاتب المغيرة بن شعبة، قال: املى علي المغيرة بن شعبة في كتاب إلى معاوية،" ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة، لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما اعطيت ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد"، وقال شعبة: عن عبد الملك بهذا، وعن الحكم، عن القاسم بن مخيمرة، عن وراد بهذا، وقال الحسن: الجد غنى.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ وَرَّاد كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: أَمْلَى عَلَيَّ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فِي كِتَابٍ إِلَى مُعَاوِيَةَ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ"، وَقَالَ شُعْبَةُ: عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بِهَذَا، وَعَنِ الْحَكَمِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، عَنْ وَرَّادٍ بِهَذَا، وَقَالَ الْحَسَنُ: الْجَدُّ غِنًى.
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عبدالملک بن عمیر سے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ کے کاتب وراد نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک خط میں لکھوایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے «لا إله إلا الله وحده لا شريك له،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ له الملك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وله الحمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وهو على كل شىء قدير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم لا مانع لما أعطيت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا معطي لما منعت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا ينفع ذا الجد منك الجد» اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اس کی ہے اور تمام تعریف اسی کے لیے ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ جسے تو دے اس سے روکنے والا کوئی نہیں اور جسے تو نہ دے اسے دینے والا کوئی نہیں اور کسی مالدار کو اس کی دولت و مال تیری بارگاہ میں کوئی نفع نہ پہنچا سکیں گے۔ شعبہ نے بھی عبدالملک سے اسی طرح روایت کی ہے۔ حسن نے فرمایا کہ (حدیث میں لفظ) «جد» کے معنی مال داری کے ہیں اور حکم، قاسم بن مخیمرہ سے وہ وراد کے واسطے سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔

Narrated Warrad: (the clerk of Al-Mughira bin Shu`ba) Once Al-Mughira dictated to me in a letter addressed to Muawiya that the Prophet used to say after every compulsory prayer, "La ilaha illa l-lahu wahdahu la sharika lahu, lahu l-mulku wa lahu l-hamdu, wa huwa `ala kulli shay'in qadir. Allahumma la mani`a lima a`taita, wa la mu`tiya lima mana`ta, wa la yanfa`u dhal-jaddi minka l-jadd. [There is no Deity but Allah, Alone, no Partner to Him. His is the Kingdom and all praise, and Omnipotent is he. O Allah! Nobody can hold back what you gave, nobody can give what You held back, and no struggler's effort can benefit against You]." And Al-Hasan said, "Al-jadd' means prosperity [??]."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 805


   صحيح البخاري6615مغيرة بن شعبةلا إله إلا الله وحده لا شريك له اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد
   صحيح البخاري6330مغيرة بن شعبةإذا سلم لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد
   صحيح البخاري7292مغيرة بن شعبةلا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد ينهى عن قيل وقال كثرة السؤال إضاعة المال ينهى عن عقوق الأمهات وأد البنات منع وهات
   صحيح البخاري6473مغيرة بن شعبةلا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير ينهى عن قيل وقال كثرة السؤال إضاعة المال منع وهات عقوق الأمهات وأد البنات
   صحيح البخاري844مغيرة بن شعبةيقول في دبر كل صلاة مكتوبة لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد
   صحيح مسلم1342مغيرة بن شعبةلا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد
   صحيح مسلم1338مغيرة بن شعبةلا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد
   سنن أبي داود1505مغيرة بن شعبةلا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد
   سنن النسائى الصغرى1344مغيرة بن شعبةعند انصرافه من الصلاة لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير
   سنن النسائى الصغرى1342مغيرة بن شعبةإذا قضى الصلاة قال لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد
   سنن النسائى الصغرى1343مغيرة بن شعبةيقول دبر الصلاة إذا سلم لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد
   بلوغ المرام253مغيرة بن شعبة لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد
   مسندالحميدي780مغيرة بن شعبة
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 844 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:844  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ حضرت معاویہ ؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، انہوں نے اپنے گورنر کو خط لکھا کہ مجھے وہ وظیفہ لکھ کر ارسال کرو جسے رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد پڑھتے ہوں تو انہوں نے مذکورہ وظیفہ لکھ کر بھیجا تھا۔
طبرانی کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں:
(يحيي و يميت وهو حي لا يموت بيده الخير)
وہ زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے۔
وہ ایسا زندۂ جاوید ہے کہ اسے کبھی موت نہیں آئے گی اور اس کے ہاتھ خیروبرکت ہے۔
(فتح الباري: 429/2)
امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ اگر حدیث میں کوئی مشکل لفظ آ جائے اور اسی طرح کا لفظ قرآن میں بھی آتا ہو تو قرآنی لفظ کا معنی بتانے کے لیے مفسرین کا حوالہ دیتے ہیں، اس مقام پر حسن بصری سے لفظ جد کی وضاحت کی ہے کہ اس کے معنی بے نیازی کے ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿وَأَنَّهُ تَعَالَىٰ جَدُّ رَبِّنَا﴾ (الجن3: 72)
اور یہ کہ بہت بلند ہے شان ہمارے رب کی اکثر روایات میں یہ تفسیری بیان ذکر نہیں ہوا۔
(فتح الباري: 430/2) (2)
حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:
اے معاذ! اللہ کی قسم، میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔
میں نے کہا:
میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔
پھر آپ نے فرمایا:
تو میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر فرض نماز کے بعد یہ ضرور پڑھا کرو:
"رب أعني علی ذكرك و شكرك و حسن عبادتك" اے میرے رب! ذکر کرنے، شکر کرنے اور اچھی عبادت کرنے میں میری مدد کر۔
(سنن النسائي، الصلاة، حدیث: 1304)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 844   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1342  
´نماز کے اختتام پر ایک دوسری تہلیل و ذکر کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے منشی وراد کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھ چکتے تو کہتے: «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شىء قدير اللہم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے اللہ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں، اور جو تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں، اور مالدار کی مالداری تیرے عذاب سے بچا نہیں سکتی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1342]
1342۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز کے بعد یہ ذکر کرنا مستحسن ہے کیونکہ اس میں خالص توحید اور اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت کا بیان ہے۔
➋ کسی کو حدیث لکھ کر بھیجنا اور اسے آگے بیان کرنا درست ہے۔
➌ ایک آدمی کی خبر بھی حجت ہے جبکہ وہ ثقہ ہو۔
تیرے مقابلے میں یعنی اگر تو پکڑنا چاہے تو کسی کی حیثیت یا اس کا مال اسے کوئی فائدہ دے سکتا ہے، نہ بچا سکتا ہے۔ یا تیرے ہاں کسی مال والے کو اس کا مال فائدہ نہیں ہوتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1342   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1505  
´آدمی سلام پھیرے تو کیا پڑھے؟`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے سلام پھیرتے تو کیا پڑھتے تھے؟ اس پر مغیرہ نے معاویہ کو لکھوا کے بھیجا، اس میں تھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اسی کے لیے حمد ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ! جو تو دے، اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو تو روک دے، اسے کوئی دے نہیں سکتا اور مالدار کو اس کی مال داری نفع نہیں دے سکتی پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1505]
1505. اردو حاشیہ: کہاں یہ زبان رسالت مآب ﷺ کے اوراد مبارکہ اور کہاں جاہل صوفیوں کے خود ساختہ وظیفے سچ ہے۔ قدر زر زرگر بد اند یا بداند جوہری یہ اصحاب الحدیث کا ہی شرف ہے۔ کہ وہ رسالت مآب ﷺ کے ہر ہر فعل کو اپنا لینا ہی سعادت جانتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1505   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 253  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض کے اختتام پر یہ دعا پڑھا کرتے تھے «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں۔ فرمانروائی اسی کی ہے اور حمد و ثنا اسی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اے اللہ! جو کچھ تو عطا فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو کچھ تو روک لے اسے عطا کرنے والا کوئی نہیں اور کسی صاحب نصیبہ کو تیرے بغیر بغیر کوئی نصیبہ نہیں دیتا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 253»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب الذكر بعد الصلاة، حديث:844، ومسلم، المساجد، باب استحباب الذكر بعد الصلاة، حديث:593.»
تشریح:
1. اس حدیث میں منقول دعا اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ وحدہ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں کہ جس کی طرف حاجات اور ضروریات کی تکمیل کے لیے رجوع کیا جا سکے۔
دنیا و مافیہا اور آسمانوں کی ہر ایک چیز اس کی مخلوق ہے اور مخلوق اپنے خالق کی ہر وقت محتاج ہے۔
وہ قادر مطلق ہے‘ کسی کو کچھ دینے اور نہ دینے کے جملہ اختیارات بلا شرکت غیرے اسی کے قبضہ ٔقدرت میں ہیں۔
اس کی سرکار میں دنیوی جاہ و حشمت اور عزت و سلطنت اس کے فضل اور رحمت کے سوا ذرہ بھر بھی کارگر اور منافع بخش ثابت نہیں ہو سکتیں۔
2. یہ دعا فرض نماز سے فارغ ہو کر پڑھنی مستحب ہے۔
اور تشہد پڑھنے کے بعد‘ سلام پھیرنے سے پہلے‘ یعنی نماز کے اندر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 253   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:780  
780-وراد جو سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے سیکرٹری ہیں وہ بیان کرتے ہیں: سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا۔ کہ آپ مجھے کوئی ایسی حدیث لکھ کر بھجوائیں جو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہو، تو سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں جوابی خط میں لکھا۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مکمل کر لیتے تھے، تو یہ پڑھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے، وہی ایک معبود ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ بادشاہی اسی کے لیے مخصوص ہے اور وہ ہر شئے پر قدرت رکھتا ہے۔ اے اللہ! جسے تو عطا کردے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:780]
فائدہ:
اس حدیث میں نماز کے بعد میں وارد شدہ اذکار میں سے ایک دعا کا ذکر ہے۔ یہ دعائیں ہر مسلمان کو ترجمہ کے ساتھ یاد ہونی چاہئیں تا کہ انھیں نماز کے بعد پڑھا جائے۔ نیز اس مبارک دعا میں عقیدہ کا بہت اہم مسئلہ بھی بیان ہوا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے اس کا کوئی شریک نہیں کل کائنات کا وہی بادشاہ ہے اور ہر قسم کی تعریف بھی اس کے لیے ہے۔ وہی ہر چیز پر قادر ہے وہی مشکل کشا ہے اور وہی نفع و نقصان کا مالک ہے۔ جب نمازی ہرفرض نماز کے بعد اس دعا کو پڑھے گا تو اس کا عقیدہ کتنا مضبوط ہوگا۔ افسوس کہ مسلمانوں کو یہ دعائیں یاد نہیں اگر کسی کو یاد بھی ہے اسے ترجمہ نہیں آتا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 780   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6330  
6330. حضرت وراد سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے حضرت امیر معاویہ ؓ کو خط لکھا کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو کہا کرتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفوں کا سزا وار بھی وہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ ا ے اللہ! جو کچھ تو نے دیا ہے اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ اے اللہ!جو کچھ تو نے روک لیا اسے کوئی دینے والا نہیں۔ کسی مالدار یا بزرگ کو (تیری عبادت کی بجائے) اس کا مال یا بزرگی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ شعبہ نے منصور سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس حدیث کو حضرت مسیب سے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6330]
حدیث حاشیہ:
حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما قریشی اموی ہیں ان کی ماں ہندہ بنت عتبہ ہے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ان کو شام کا گورنر بنا دیا تھا خلافت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ میں بھی یہ شام کے حاکم رہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ شام کے مستقل حاکم بن گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت حسن نے41ھ میں امر خلافت ان کے سپرد کر دیا۔
یہ شام کے چالیس سال تک حاکم رہے۔
80برس کی عمر میں بعارضہ لقوہ ماہ رجب میں وفات پائی۔
بڑے ہی دانش مند سیاست دان۔
مرد آہنی تھے۔
ان کے دورحکومت میں اسلام کو دوردراز تک پھیلنے کے بہت سے مواقع ملے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6330   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6615  
6615. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے آزاد کردہ غلام وراد سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کو خط لکھا کہ مجھے نبی ﷺ کی وہ دعا لکھ بھیجو جو تم نے آپ ﷺ کو نماز کے بعد کرتے سنی ہو، چنانچہ حضرت مغیرہ ؓ نے مجھے لکھنے کا حکم دیا اور کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے آپ ہر نماز کے بعد یہ دعا کرتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اے اللہ! جو تو دینا چاہیئے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکنا چاہے اسے کوئی دینے والا نہیں اور تیرے حضور کسی دولت مند کی دولت کچھ کام نہیں آ سکتی۔ ابن جریج نے کہا: مجھے عبدہ نے خبر دی اور انہیں وراد نے بتایا، پھر اس کے بعد میں امیر معاویہ ؓ کے پاس گیا تو میں نے سنا کہ وہ لوگوں کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6615]
حدیث حاشیہ:
الفاظ دعا سے ہی کتاب القدر سے مناسبت نکلی۔
عبدہ بن ابی لبابہ کی سند ذکر کرنے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ عبدہ کا سماع وراد سے ثابت ہوا کیوں کہ اگلی روایت میں اس سماع کی صراحت نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6615   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6330  
6330. حضرت وراد سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے حضرت امیر معاویہ ؓ کو خط لکھا کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو کہا کرتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفوں کا سزا وار بھی وہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ ا ے اللہ! جو کچھ تو نے دیا ہے اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ اے اللہ!جو کچھ تو نے روک لیا اسے کوئی دینے والا نہیں۔ کسی مالدار یا بزرگ کو (تیری عبادت کی بجائے) اس کا مال یا بزرگی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ شعبہ نے منصور سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس حدیث کو حضرت مسیب سے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6330]
حدیث حاشیہ:
(1)
دراصل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تھا کہ مجھے وہ احادیث لکھ کر بھیجیں جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں تو انہوں نے جواب میں یہ حدیث لکھ کر بھیجی۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1477) (2)
ابن بطال نے لکھا ہے کہ ان احادیث میں ہر نماز کے بعد ذکر الٰہی کی ترغیب ہے اور یہ عمل اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے برابر ہے، نیز امام اوزاعی سے سوال ہوا کہ نماز کے بعد ذکر الٰہی بہتر ہے یا تلاوت قرآن تو انہوں نے فرمایا:
تلاوت قرآن سے بہتر تو کوئی عمل نہیں مگر سلف صالحین کا طریقہ نماز کے بعد ذکر و اذکار کا ہی تھا۔
(فتح الباري: 162/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6330   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6473  
6473. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے کاتب وراد بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ ؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کو خط لکھا کہ کوئی حدیث جو تم نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو مجھے لکھ بھیجو، چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے انہیں لکھا: میں نے آپ ﷺ سے سنا: آپ نماز سے فراغت کے بعد یہ پڑھتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ تنہا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے بادشاہت ہے اور وہی حمد وثنا کا سزاوار ہے۔ اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔ یہ تین مرتبہ پڑھتے تھے، نیز آپ فضول گفتگو، زیادہ سوال کرنے مال کے ضیاع اپنی چیز بچا کر رکھنے دوسروں کی چیز مانگنے ماؤں کی نافرمانی کرنے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کرتے تھے۔ ہشیم کہتے ہیں کہ ہمیں عبدالملک بن عمیر نے بتایا، انہوں نے کہا: میں نے وراد سے سنا، وہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے وہ نبی ﷺ سے یہ حدیث بیان کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6473]
حدیث حاشیہ:
(1)
قیل و قال سے مراد ایسی لچر اور فضول گفتگو جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔
بندۂ مومن کو ایسی فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام تعلیم تھی کہ بلا ضرورت اور بے فائدہ باتیں کرنے سے زبان کو روکا جائے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے:
انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول باتوں اور بے فائدہ کاموں سے بچے۔
(سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث: 3976) (2)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بلا ضرورت اور بے فائدہ گفتگو نہ کرنا اور لغو و فضول مشاغل سے خود کو محفوظ رکھنا انسان کے اچھے اسلام کی علامت اور اس کے ایمان کی خوبی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان لغویات سے خود کو محفوظ رکھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6473   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6615  
6615. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے آزاد کردہ غلام وراد سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کو خط لکھا کہ مجھے نبی ﷺ کی وہ دعا لکھ بھیجو جو تم نے آپ ﷺ کو نماز کے بعد کرتے سنی ہو، چنانچہ حضرت مغیرہ ؓ نے مجھے لکھنے کا حکم دیا اور کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے آپ ہر نماز کے بعد یہ دعا کرتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اے اللہ! جو تو دینا چاہیئے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکنا چاہے اسے کوئی دینے والا نہیں اور تیرے حضور کسی دولت مند کی دولت کچھ کام نہیں آ سکتی۔ ابن جریج نے کہا: مجھے عبدہ نے خبر دی اور انہیں وراد نے بتایا، پھر اس کے بعد میں امیر معاویہ ؓ کے پاس گیا تو میں نے سنا کہ وہ لوگوں کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6615]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کو نماز کے بعد پڑھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے کیونکہ ان میں کمال توحید اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی وسعت کا ذکر ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو تقدیر پر ایمان لانے کے اثرات کو بیان کرنے کے لیے روایت کیا ہے کہ اس سے مومن کا عقیدہ راسخ اور پختہ ہو جاتا ہے کہ عطا کرنے یا روک لینے کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اگر اللہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کے سوا کوئی اسے دور نہیں کر سکتا اور اگر وہ آپ سے کوئی بھلائی کرنا چاہے تو کوئی اسے ٹالنے والا نہیں۔
وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے، اس سے نوازتا ہے۔
(یونس: 107/10)
راسخ اور پختہ عقیدے کے نتیجے میں خودداری، جراءت مندی اور دلیری پیدا ہوتی ہے۔
جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ تمام چیزیں تقدیر الٰہی سے ہیں اسے پچھلی باتوں پر رنج اور مستقبل کا فکر دامن گیر نہیں ہوتا۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6615   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7292  
7292. سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ کے کاتب وراد سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ ؓ سیدنا مغیرہ ؓ کو خط لکھا کہ رسول اللہﷺ سے تم نے جو سنا ہے وہ مجھے لکھ بھیجیں، تو انہوں نے انکی طرف لکھا کہ نبی ﷺ پر نماز کے بعد کہتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لیے بادشاہی اور تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔ اے اللہ! جس کو تو عطا کرے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی عطا نہیں کر سکتا اور کسی بزرگ کو اسکی بزرگی تیری مقابلے میں کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی۔ نیز لکھا کہ آپ ﷺ قیل وقال کثرت سوال، مال کے ضیاع ماؤں کی نافرمانی اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع فرماتے تھے اور اپنا حق محفوظ رکھنے دوسروں کا حق روکنے سے بھی روکتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7292]
حدیث حاشیہ:

حضرت وراد حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاتب تھے۔
ان کابیان ہے کہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک وفد کےساتھ گیاتو میں نےدیکھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو بکثرت یہ حدیث بیان کیا کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، القدر، حدیث: 6615)

اس حدیث میں کثرت ِسوال کی ممانعت ہے۔
کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ خوامخواہ سوالات کرنے کے عادی ہوتے ہیں، ان کا مقصد عملی زندگی سنوارنا نہیں بلکہ اپنی شیخی بگھارنا اور خودستائی کرنا ہوتا ہے۔
کچھ لوگ بال کی کھال اُتارنے کے شوقین ہوتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے، بامقصد سوالات پوچھنے کی ممانعت نہیں کیونکہ قرآن کریم کا حکم ہے:
اگر تمھیں علم نہیں تو اہل علم سے سوال کرو۔
(النحل: 43)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7292   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.