الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
54. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ} :
54. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ القمر میں) فرمان ”اور ہم نے قرآن مجید کو سمجھنے یا یاد کرنے کے لیے آسان کر دیا ہے“۔
(54) Chapter. The Statement of Allah: “And We have indeed made the Quran easy to understand and remember...” (V.54:17)
حدیث نمبر: Q7551
Save to word اعراب English
وقال النبي صلى الله عليه وسلم: كل ميسر لما خلق له يقال ميسر مهيا، وقال مجاهد: يسرنا القرآن بلسانك هونا قراءته عليك، وقال مطر الوراق: ولقد يسرنا القرءان للذكر فهل من مدكر سورة القمر آية 17، قال: هل من طالب علم فيعان عليه.وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ يُقَالُ مُيَسَّرٌ مُهَيَّأٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ بِلِسَانِكَ هَوَّنَّا قِرَاءَتَهُ عَلَيْكَ، وَقَالَ مَطَرٌ الْوَرَّاقُ: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْءَانَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 17، قَالَ: هَلْ مِنْ طَالِبِ عِلْمٍ فَيُعَانَ عَلَيْهِ.
‏‏‏‏ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر شخص کے لیے وہی امر آسان کیا گیا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ «ميسر» بمعنی تیار کیا گیا (آسان کیا گیا) اور مجاہد نے کہا کہ «يسرنا القرآن بلسانك» کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس کی قرآت کو تیری زبان میں آسان کر دیا۔ یعنی اس کا پڑھنا تجھ پر آسان کر دیا۔ اور مطر الوراق نے کہا کہ «ولقد يسرنا القرآن للذكر فهل من مدكر» کا مطلب یہ ہے کہ کیا کوئی شخص ہے جو علم قرآن کی خواہش رکھتا ہو پھر اللہ اس کی مدد نہ کرے؟

حدیث نمبر: 7551
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو معمر، حدثنا عبد الوارث، قال يزيد، حدثني مطرف بن عبد الله، عن عمران، قال: قلت:" يا رسول الله، فيما يعمل العاملون؟، قال: كل ميسر لما خلق له".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ يَزِيدُ، حَدَّثَنِي مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عِمْرَانَ، قَالَ: قُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِيمَا يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ؟، قَالَ: كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے، ان سے یزید نے کہ مجھ سے مطرف بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عمران رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے کہا یا رسول اللہ! پھر عمل کرنے والے کس لیے عمل کرتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شخص کے لیے اس عمل میں آسانی پیدا کر دی گئی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔

Narrated `Imran: I said, "O Allah's Apostle! Why should a doer (people) try to do good deeds?' The Prophet said, "Everybody will find easy to do such deeds as will lead him to his destined place for which he has been created.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 641


   صحيح البخاري7551عمران بن الحصينكل ميسر لما خلق له
   صحيح البخاري6596عمران بن الحصينكل يعمل لما خلق له أو لما يسر له
   صحيح مسلم6739عمران بن الحصينأرأيت ما يعمل الناس اليوم ويكدحون فيه أشيء قضي عليهم ومضى عليهم من قدر ما سبق فيما يستقبلون به مما أتاهم به نبيهم وثبتت الحجة عليهم فقلت بل شيء قضي عليهم ومضى عليهم قال أفلا يكون ظلما ففزعت من ذلك فزعا شديدا وقلت كل شيء خلق الله ومل
   صحيح مسلم6737عمران بن الحصينكل ميسر لما خلق له
   سنن أبي داود4709عمران بن الحصينكل ميسر لما خلق له
   مشكوة المصابيح87عمران بن الحصينلا بل شيء قضي عليهم ومضى فيهم وتصديق ذلك في كتاب الله عز وجل ونفس وما سواها فالهمها فجورها وتقواها
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7551 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7551  
حدیث حاشیہ:
یعنی جس کی قسمت میں جنت ہے اس کو خود بخوداعمال خیر کو توفیق ہوگی وہ نیک کاموں میں راغب ہوگا اورجس کی تقدیر میں دوزخ ہے اس کو نیک کاموں سےنفرت اور برے کاموں کی رغبت ہوگی۔
یہ دونوں احادیث اوبرگزرچکی ہیں۔
یہاں لفظ تیسیر کی مناسبت سے ان کو لائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7551   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 87  
´قسمت میں لکھا پورا ہو کر رہتا ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن عمرَان بن حضين: إِن رجلَيْنِ من مزينة أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ الْيَوْمَ وَيَكْدَحُونَ فِيهِ أَشِيءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضَى فيهم من قدر قد سَبَقَ أَوْ فِيمَا يَسْتَقْبِلُونَ بِهِ مِمَّا أَتَاهُمْ بِهِ نَبِيُّهُمْ وَثَبَتَتِ الْحُجَّةُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لَا بَلْ شَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضَى فِيهِمْ وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (وَنَفْسٍ وَمَا سواهَا فألهمها فجورها وتقواها) ‏‏‏‏رَوَاهُ مُسلم ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ مزینہ قبیلہ کے دو آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ یہ فرمائیے جو کچھ آج کل لوگ کام کرتے ہیں اور اس کے حاصل کرنے میں محنت و مشقت کرتے ہیں، کیا وہ ایسی چیز ہے جو ان کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے اور ان کی تقدیر میں گزر چکی ہے یعنی جو کچھ لوگ کرتے ہیں یہ سب پہلے تقدیر میں لکھا جا چکا ہے یا آئندہ وہ چیز ہونے والی ہے جن کو ان کا نبی لایا ہے اور ان پر حجت و دلیل ثابت ہو چکی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! اس کا فیصلہ ہو چکا اور یہ چیز ان پر گزر چکی ہے اس کی تصدیق اللہ عزوجل کی کتاب میں ہے «ونفس وما سواها ٭فألهمها فجورها وتقواها» الایۃ یعنی قسم ہے جان کی اور اس کے بنانے والے کی، پھر اس کے دل میں بھلائی و برائی ڈال دی ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 87]
تخریج:
[صحيح مسلم 6739]

فقہ الحدیث:
➊ معلوم ہوا کہ تقدیر پہلے سے مقرر شدہ ہے اور انسان مجبور محض نہیں، بلکہ اپنے اعمال میں خود مختار ہے۔
➋ حدیث اور قرآن ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 87   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4709  
´تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا جنتی اور جہنمی پہلے ہی معلوم ہو چکے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اس نے کہا: پھر عمل کرنے والے کس بنا پر عمل کریں؟ آپ نے فرمایا: ہر ایک کو توفیق اسی بات کی دی جاتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4709]
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں تقدیرکو صراحتًا (اللہ کا) علم قراردیا گیا ہے، اس معنی کی احادیث میں اہل خیر کو ایک حد تک خیر کی بشارت اور امید دلائی گئی ہے اور دوسروں کے لئے تنبیہ اور توبہ کی دعوت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4709   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6739  
ابو الاسود ولی کہتے ہیں،مجھے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا جانتے ہو؟آج لوگ جو عمل کر رہے ہیں اور اس کے لیے جو مشقت برداشت کر رہے ہیں،کیا یہ ایسی چیز ہے جس کا ان کے بارے میں فاصلہ کر دیا گیا ہے وہ سابقہ تقدیر سے یہ طے ہو چکے ہیں؟یا ان کا نبی جو شریعت لایا اور ان پر حجت قائم ہو گئی ہے، اس کی روشنی میں نئے سرے سے ہو رہے ہیں؟ تو میں نے کہا بلکہ یہ ایسی چیز ہے، جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6739]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا،
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بدی اور تقویٰ کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت اور شعور بخشا ہے اور اس سے کام لے کر،
وہ نیکی یا بدی کر رہا ہے،
لیکن اللہ کو پہلے سے پتہ ہے،
اس نے نیکی کرنی ہے یا بدی،
اس لیے اپنے علم کے مطابق اس نے لکھ دیا ہے کہ اس نے کون سے عمل کرنے ہیں اور اس کے مطابق وہ عمل کر رہا ہے،
اس لیے یہ جبر نہیں ہے کہ اس کو ظلم قرار دیا جائے،
بالفرض وہ اگر جبر بھی کرتا تو یہ ظلم نہ ہوتا،
کیونکہ وہ ہر چیز کا خالق اور مالک ہے،
اس لیے وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہے،
انسان مخلوق ہونے کی بنا پر اپنے اعمال کا جوابدہ ہے،
اس سے سوال ہو گا تو نے یہ عمل کیوں کیا،
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ﴿٢٣﴾ (سورۃ الانبیاء)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6739   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6596  
6596. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا جنتی لوگ اہل جہنم سے پہچانے جا چکے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اس نے عرض کی: پھر عمل کرنے والے عمل کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہر شخص وہی عمل کرتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے یا جواس کے لیے آسان کیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6596]
حدیث حاشیہ:
رشك بکسر یزید کا لقب ہے، ان کی ڈاڑھی بہت ہی لمبی تھی۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو لازم ہے کہ نیک کاموں کی کوشش کرے اور اللہ سے جنتی ہونے کی دعا بھی کرے کیونکہ دعا سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور دعا کرنا بھی تقدیر سے ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6596   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6596  
6596. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا جنتی لوگ اہل جہنم سے پہچانے جا چکے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اس نے عرض کی: پھر عمل کرنے والے عمل کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہر شخص وہی عمل کرتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے یا جواس کے لیے آسان کیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6596]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اصل فیصلہ وہی ہوتا ہے جو قضا و قدر انسان کے متعلق کر چکی ہے، باقی رہے ہمارے ظاہری اعمال تو وہ انسان کے اچھے اور برے ہونے کی صرف ظاہری نشانیاں ہیں۔
اچھے اعمال سے حسن خاتمہ کی امید اور برے اعمال سے برے خاتمے کا اندیشہ ضرور ہوتا ہے۔
اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے۔
(2)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قبیلۂ مزینہ کے دو آدمیوں نے عرض کی:
اللہ کے رسول! لوگ جو آج عمل کر رہے ہیں اور اس کے لیے محنت و کوشش کر رہے ہیں کیا یہ ایسی چیز ہے جس کا فیصلہ کیا جا چکا ہے اور پہلے سے جو تقدیر ہے وہ نافذ ہو چکی ہے یا وہ اس چیز کی طرف جا رہے ہیں جو ان کے نبی ان کے پاس لے کر آئے اور ان کے خلاف حجت قائم کی؟ آپ نے فرمایا:
نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا ان کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے اور تقدیر ان کے متعلق نافذ ہو چکی ہے اور اس بات کی تصدیق اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے:
اور نفس کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے درست کیا! پھر بدکاری اور پرہیزگاری (دونوں)
کی اسے سمجھ عطا کی۔
(الشمس 7/91، 8، و صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6739 (2650) (3)
واضح رہے کہ اس معنی کی دیگر احادیث میں اہل خیر کو ایک حد تک خیر کی بشارت اور امید دلائی گئی ہے اور دوسروں کے لیے تنبیہ اور توبہ کی دعوت ہے۔
بہرحال ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیک اعمال کی کوشش کرے اور اللہ تعالیٰ سے جنتی ہونے کی دعا کرتا رہے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6596   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.