ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا , کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا , ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں تکلف اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
Narrated Anas: We were with `Umar and he said, "We have been forbidden to undertake a difficult task beyond our capability (i.e. to exceed the religious limits e.g., to clean the inside of the eyes while doing ablution).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 396
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7293
حدیث حاشیہ: ابو نعیم نے مستخرج میں نکالا انس رضی اللہ عنہ سے کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے وہ چار پیوند لگے ہوئے ایک کرتہ پہنے تھے۔ اتنے میں انہوں نے یہ آیت پڑھی (وَفَاكِهَةً وَأَبًّا) تو کہنے لگے فاکھة تو ہم کو معلوم ہے لیکن أباً کیا چیز ہے۔ پھر کہنے لگے بآایں ہم کو تکلیف سے منع کیا گیا اور اپنے تئیں آپ پکارنے لگے اور کہنے لگے اے عمر کی ماں کے بیٹے! یہی تو تکلف ہے اگر تجھ کو یہ معلوم نہ ہوا کہ أباً کیا چیز ہے تو کیا نقصان ہے۔ ؟
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7293
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7293
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے تھے،انھوں نے جوقمیص پہن رکھی تھی اس کی پشت پر چار پیوند لگے ہوئے تھے،اس دوران میں انھوں نے یہ آیت پڑھی: (وَفَاكِهَةً وَأَبًّا) پھر فرمایا: (فَاكِهَةً) تو ہم جانتے ہیں لیکن (أَبًّا) کیا چیز ہے؟ پھرفرمایا: ہم کو تکلف سے منع کیا گیا ہے۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود کو مخاطب کرتے ہوئےفرمایا: ”عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! یہی توتکلف ہے، اگرتجھے معلوم نہ ہو کہ (أَبًّا) کیا چیز ہے؟ تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ (فتح الباري: 332/13) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اس لفظ کی تفسیر کی کہ اس کے معنی حیوانات کاچارا ہے۔ ان تفسیری نکات کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انھیں اپنے قریب جگہ دیتے تھے۔ (فتح الباري: 333/13) نوٹ: ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس سے مقصد یہ ہے کہ صحابی کا قول (أَمْرِنَا) اور(نُهِيْنَا) مرفوع حدیث کے حکم میں ہے اگرچہ اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہ ہو، اس لیے انھوں نے اس حدیث میں (نُهِينَا عَنِ التَّكَلُّفِ) پر اکتفا کیا اور باقی واقعہ حذف کر دیا۔ (فتح الباري: 333/13) مقصد یہ ہے کہ بے فائدہ تکلفات کی شرعاً اجازت نہیں جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق عنوان قائم کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7293