(مرفوع) فجاء الاشعث، وعبد الله يحدثهم، فقال: في نزلت وفي رجل خاصمته في بئر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: الك بينة، قلت: لا، قال: فليحلف، قلت: إذا يحلف، فنزلت: إن الذين يشترون بعهد الله سورة آل عمران آية 77.(مرفوع) فَجَاءَ الْأَشْعَثُ، وَعَبْدُ اللَّهِ يُحَدِّثُهُمْ، فَقَالَ: فِيَّ نَزَلَتْ وَفِي رَجُلٍ خَاصَمْتُهُ فِي بِئْرٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَكَ بَيِّنَةٌ، قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَلْيَحْلِفْ، قُلْتُ: إِذًا يَحْلِفُ، فَنَزَلَتْ: إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ سورة آل عمران آية 77.
اتنے میں اشعث رضی اللہ عنہ بھی آ گئے۔ ابھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان سے حدیث بیان کر ہی رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ہی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی اور ایک شخص کے بارے میں میرا ان سے کنویں کے بارے میں جھگڑا ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) کہا کہ تمہارے پاس کوئی گواہی ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فریق مقابل کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ میں نے کہا کہ پھر تو یہ (جھوٹی) قسم کھا لے گا۔ چنانچہ آیت «إن الذين يشترون بعهد الله»”بلاشبہ جو لوگ اللہ کے عہد کو“ الخ نازل ہوئی۔
'Al- Ashath came while `Abdullah was narrating (this) to the people. Al-Ashath said, "This verse was revealed regarding me and another man with whom I had a quarrel about a well. The Prophet said (to me), "Do you have any evidence?' I replied, 'No.' He said, 'Let your opponent take an oath.' I said: I am sure he would take a (false) oath." Thereupon it was revealed: 'Verily! those who purchase a small gain at the cost of Allah's Covenant ....' (3.77)۔
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9 , Book 89 , Number 294
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7184
حدیث حاشیہ: اس سے کنوئیں وغیرہ کے مقدمات ثابت ہوئے اور یہ بھی کہ اگر مدعی کے پاس گواہ نہ ہو تو مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7184
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7184
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ حدیث بھی اس امر کی دلیل ہے کہ حاکم کا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ ہوگا لیکن وہ حرام کو حلال نہیں کرسکے گا اور نہ ممنوع چیز کو مباح ہی کرے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو جھوٹی قسم اٹھا کر کسی دوسرے کا حق ہتھیانے سے منع فرمایا ہے اور اس پر سخت وعید سنائی ہے۔ قرآن کریم کی وعید تو اس معاملے میں بہت سنگین ہے کہ اللہ ایسے شخص سے گفتگو نہ کرے گا اور نہ اسے پاکیزہ ہی قرار دے گا بلکہ اسے سنگین عذاب دے گا۔ اگر قاضی کا فیصلہ باطن میں بھی نافذ ہوتا اور حرام کو حلال کر دیتا تو اسے اللہ تعالیٰ سے شرف کلام سے محروم نہ کیا جاتا۔ 2۔ بہرحال اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں کے متعلق فیصلہ فرمایا۔ قاضی کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے مقدمات کی بھی سماعت کرے اور ان کا فیصلہ کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7184